پاکستان کا استحکام ناگزیر ہے
ڈرنے کی کیا ضرورت ہے کوئی بھی سدا اقتدار میں نہیں رہتا ہے کبھی جیت تو کبھی ہار۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے
وطن عزیز میں آج کل ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے، وہ ہے ملک کا دیوالیہ یا بینک کرپٹ ہونے کے بالکل قریب ہے، اس معاشی بحران سے ملک کو نکالنے کے لیے کیا تدابیر کرنی چاہیے، اس نکتے پر سیاستدان کم ہی غور کر رہے ہیں۔
مقتدر حضرات آج کل ملک کو عدم استحکام سے نکالنے کے بجائے غیر ملکی دوروں پر ہیں، نواز شریف لندن میں ہیں، جیسے ہی ان کے حق میں حالات صحیح ہوں گے یا ان کے لیے راہ ہموار کی جائے گی وہ واپس آ کر مسند اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوں گے، اتحادی جماعتوں کے حالات و واقعات سے ہر شخص واقف ہے۔
صاحبان اقتدار کو کسی قسم کا مسئلہ نہیں کہ پاکستان کا شمار زوال پذیر ملکوں میں ہو چکا ہے اگر دلچسپی ہے تو عہدوں کے حصول سے وہ خود بھی حکومت کریں اور مستقبل قریب میں ان کی اولادیں وزارت اور دوسرے اہم عہدوں کی حق دار بنیں کہ ان کے آباو اجداد نے ان کی سیاسی تربیت اس لیے کی ہے کہ وہ حکومت میں آ کر ان کے ہی نقش قدم پر چلیں۔
چاروں صوبوں سے لوگوں کی ایک تعداد پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنا دن رات کا آرام چین گنوا کر احتجاجی جلوس میں شامل ہوتے ہیں ۔ پاکستان کا آدھا حصہ ناعاقبت اندیشی کے کھیل میں نکل گیا ہے، محض اقتدار کے حصول کے لیے اب یہ آدھا پاکستان بچا ہے تو اس کی ہی حفاظت کرلیں۔ اپنی جمع کی ہوئی دولت سے ملک کی معیشت کو ڈوبنے سے بچا لیں۔
دانش مندی اور حب الوطنی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دوسرے ملکوں میں جائیدادیں بنانے کے بجائے اپنے وطن کو مضبوط کریں تاکہ دشمن ہماری کمزوری سے فائدہ نہ اٹھائے، لیکن اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے۔ دولت کی بندربانٹ نے اغیار کو ہنسنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔
یہ ملک جتنا اہل اقتدار کا ہے اتنا ہی عوام کا بھی ہے بلکہ اس سے زیادہ ہے کہ ان کی ہی محنت و مشقت کا پیسہ ٹیکسوں کی مد میں چلا جاتا ہے اور ان کے بچے اور وہ خود فاقہ کشی کا شکار ہو کر یا تو خودکشی کرلیتے ہیں یا پھر طبعی موت مر جاتے ہیں، مہنگائی کے ہاتھوں ان کے بچوں کو دودھ،، بسکٹ اور دوسری قوت بخش اشیا کھانے سے محروم کردیا ہے، بجلی کا مسئلہ تو اپنی جگہ ہے ہی۔
لوڈ شیڈنگ اور زیادہ سے زیادہ بلوں کی وصولی اور گیس کا نہ ہونا، پانی کی کمی نے پاکستانی عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، تعلیم اور علاج و معالجہ اپنی جگہ، حکومت نے کبھی اس نکتے پر غور کیا کہ تنخواہیں وہی ہیں، پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخ ہر ہفتے اور ہر ماہ تیزی سے بڑھا دیے جاتے ہیں؟
اس اندھیر نگری کے خاتمے کے لیے نہ قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی دوسرے اہم ادارے کہ افلاس کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالا جائے۔ ایک طرف مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے تو دوسری طرف اسلامی تعلیم اور اصولوں سے انحراف کو بھی ممکن بنا دیا ہے۔ امیر، امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب غربت کی دلدل میں گر کر ہر روز اپنی جان گنواتا ہے۔
اس ملک میں کیا کوئی اتنا بااختیار نہیں ہے جو مقتدر حضرات سے ان کی تعیش بھری زندگی کے بارے میں پوچھے کہ جب اقتدار میں نہیں تھا تو ایک معمولی گھر میں رہنے والا، ایک عام آدمی تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد ارب پتی ہو گیا، دوسرے ملکوں میں محلات اور جائیدادیں بنا لیں تو یہ پیسہ آیا کہاں سے؟ کیا اسلام دوسروں اور خصوصاً یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا حکم دیتا ہے؟
یقینی بات ہے اسلام میں لوٹ مار، چوری، ڈاکا، قتل و غارت کی سزا جنم کی آگ ہے، دنیاوی سزائیں علیحدہ۔ ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور جان کے بدلے جان لینے کا حکم ہے۔ کرپشن، کرپشن کی صدائیں اندرون ملک اور بیرون ملک بلند ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں صداقت کی راہ پر چلنے والوں نے حق کے لیے آواز اٹھائی تو کیا برا کیا؟
پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے ان کے حقوق کو غصب کیا جا رہا ہے۔ ان کے بیٹوں کو امرا کے بچے جان سے مارنے کا حق رکھتے ہیں۔ قاتل کو تھوڑا عرصہ جیل میں بند کرتے ہیں اور پھر چند ماہ یا دو تین سالوں بعد رہا کردیتے ہیں، یہ ظلم و ستم اللہ دیکھ رہا ہے، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور مکافات عمل تعاقب میں ہے۔
اچھے اور بہادر لوگوں سے تاریخ جگمگ کر رہی ہے جو گولیاں کھانے کے بعد بھی بے مزہ نہیں ہوتے، اپنے مقصد کے حصول کے لیے جان کی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ جان تو ایک دن جانی ہی ہے تو اس سے کیا ڈرنا، جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے اسی وقت سانسوں کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے۔
حاکم ہو یا محکوم سب ہی کو ایک دن یہ دنیا چھوڑنی ہوتی ہے، اب یہ اور بات ہے کہ کوئی ٹیپو سلطان کی طرح زندگی کو خاص مقصد اور اللہ کی رضا کے لیے قربان کردے یا پھر بزدلوں کی طرح روپوش ہوجائے یا روپے پیسے کی ریل پیل میں اپنے آپ کو گم کرلے حق و صداقت کو بھول کر اس بات کو فراموش کرکے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو اپنا نائب بنایا ہے۔ نائب کی حیثیت سے وہ کام کرے جس میں اللہ کی رضا شامل ہو۔ اور بقول علامہ اقبال:
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ایک جگہ اور اقبال فرماتے ہیں، اس طرح جیسے آج کے حالات ان کی نگاہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں:
مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں
بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست
فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور
کہ معرکے میں شریعت کے جنگِ بدست
گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست
ملک کے سابقہ وزیر اعظم اور پارٹی کے لیڈر عمران خان کو پچھلے دنوں جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ جان اللہ کے ہاتھ میں ہے، سو وہ بچ گئی۔ لیکن ان دنوں پھر حکومت کی طرف سے پیغامات دیے جا رہے ہیں کہ اب وہ احتجاجی ریلی ہرگز نہ نکالیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔میرے خیال میں عمران خان کا مطالبہ مان لیا جائے اور مطالبہ ہی کیا ہے کہ الیکشن کرا دیے جائیں جو بھی جیتے گا وہ عوام کی منشا سے، ان کے ووٹوں کے ذریعے۔ ڈرنے کی کیا ضرورت ہے کوئی بھی سدا اقتدار میں نہیں رہتا ہے کبھی جیت تو کبھی ہار۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے۔
22 کروڑ پاکستانیوں اور ملک کے استحکام کی خاطر۔ ذرا غور تو کریں عمران خان نے اپنی حکومت میں ملکی اور غیر ملکی سطح پر کتنے کام اصلاح معاشرہ اور امت مسلمہ کے وقار اور عزت میں اضافہ کرنے کی خاطر کیے ہیں۔ اور آپ نے ملک و قوم کے لیے جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کی بھی رونمائی کی ضرورت ہے۔