وہ جو ایک تقریر تھی
تاریخ کے باب اگر بند کر دیے جائیں تب بھی تاریخ کا سفر جاری رہتاہے
یہ کوئی مارٹن لوتھر کی تقریر نہیں تھی، نہ مہاتما گاندھی نہ نیلسن منڈیلا کی مگر یہ ایک تقریر تھی جو اگرچہ جنرل مشرف، یحییٰ یا جنرل ایوب یا پھر ضیاالحق تو نہیں تھے مگر پھر بھی ایک ایسے سربراہ بھی نہیں جو آئے اور آکر چلے گئے تھے۔
یہ خود تو نہیں تھے مگر ایک سوچ تھی۔ جب شب خون مارنے کا زمانہ گیا تو تو پولیٹیکل انجینئرنگ کامیاب پالیسی رہی ہے ؟ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پچھتر برسوں میں مخصوص بیانیے سے بنی مخصوص اشرافیہ۔ اس اشرافیہ کے اور بھی کئی تاریخی پہلو ہیں اور جو ان چھ سالوں میں ہوا، اس کی تفصیل میں ابھی نہیں جاتے۔ مگر کچھ داغ تو دھل گئے کہ ایک اعتراف تو تھا۔
آج یا کل نہیں بلکہ پورے پچھتر برسوں سے مداخلت رہی ہے ، اس کو کچھ نہ کچھ تو وزن دینا پڑے گا۔ ان پچھتر سالوں میں بہت سی مداخلتوں کو نظریہ ضرورت کے تحت لیگل کور بھی دیا گیا بلکہ پارلیمینٹیرینز نے بھی آمروں کی ترامیم کو منظور کرکے آئینی کور دیا ، یوں اب تو اعتراف سب اسٹیک ہولڈرز کا بنتا ہے۔شروعات ذوالفقار علی بھٹو کیس سے ہونی چاہیے کیونکہ اس حوالے سے ایک اعتراف جسٹس نسیم حسین شاہ بھی کر گئے تھے۔
سب زمینی حقائق ہیں، ان کو اسی طرح دیکھنا چاہیے نہ ان کو اخلاقی لبادہ اوڑھو، نہ کوئی حیلے بہانے بنائو۔ یہ سب کچھ اس خلاء سے پیدا ہوا جو سیاستدان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے نہیں بھر سکے۔ سیاست دان کمزور کیوں تھے؟ یہ الگ بحث ہے، اس کا لب لباب یہ ہے سماجی خدوخال کمزور تھے تو پھر سیاستدان کمزور کیونکر نہ ہوتے۔ سیاست کے ایک گروہ نے پہلے تو خود ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
''مسلم لیگ کی حکمرانی ہوگی بس، ایک پارٹی نظام ہوگا بس۔'' جو مسلم لیگ کا سیاسی مخالف ہے، وہ پاکستان کا غدار ہے۔ ہندوستان کی تقسیم سے ورثے میں ملنے والے مسلم لیگی حکمران پاکستان میں الیکشن کرانا ہی نہیں چاہتے تھے، پارلیمنٹ اپنی عمر خود طویل کرتی تھی۔ سکندر مرزا، جنرل ایوب اور گورنر جنرل غلام محمد کے لیے یہ نادر موقع تھا۔
پہلے غلام محمد فارغ ہوئے، پھر جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو بھی فارغ کردیا، پھر سیاستدان اور ایوب خان اور ان کی فوجی ٹیم ایک ساتھ ہوگئے۔ ایوب خان خود ہی فیلڈ مارشل، خود ہی صدر اور خود ہی آئین بن گئے، ہمارے جاگیردار، قبائلی وڈیرے اور گدی نشین سیاستدان بغیر اسمبلی کے جنرل ایوب خان کے گرد گھومتے رہے کیونکہ ہماری سیاسی اشرافیہ کی پیدائش اور پرورش ہی موقع پرستی، عیاری ،خوشامد اورمخبری کا دودھ پلا کر کی گئی تھی۔
اس کلاس کے لیے کا خمیر ہی اقتدار کی کالیسی سے تیار ہوا تھا، پاکستان بنا تو یہ خود مقتدر ہوگئے، ایوب خان آیا تو یہ اس کے ناک، کان اور باوز بن گئے، ایوب خان نے بھی اپنے خاندان، رشتہ داروں اوردوستوں کو ریاستی مراعات کے سہارے طبقہ اشرافیہ میں شامل کرادیا۔ ایوب خان کے بعد یہ اشرافیہ یحییٰ خان ، جنرل ضیاالحق اورجنرل (ر) مشرف کی ساتھی بن گئی !یوں اشرافیہ کا حجم بھی مسلسل بڑھتا رہا۔
سب خوش تھے، مزے مزے سے زندگی گزار رہے تھے، کبھی مجا ہد پیدا کرتے تھے،کبھی طالبان بناتے رہے اور ان سے کام لیتے رہے۔ انہی راہوں پر ماری گئی تھی بے نظیر، اسے مارنے والے کوئی اجنبی نہیں تھے، وہی تھے جنھوں نے فوراً جائے وقوعہ کو پانی سے دھونے کا حکم دے دیا تاکہ شواہد مٹائے جا سکیں، جس طرح جنرل ضیاء الحق نے پیمانہ بنایا تھا کہ صادق وامین کون ہے اور اب جب فوجداری مقدمہ خود پر چل پڑا، توشہ خانہ سے بیش قیمت گھڑیاں غائب ہونے کا تب پتہ چلا ہے کہ صادق و امین کیسا ہوتا ہے۔
جو جمہوری تحریک کو کا حامی طبقہ تھا، وہ محب وطن نہیں تھا اور جو کنگز پارٹی کا حصہ تھا، وہ محب وطن تھا۔ جنرل مشرف کہتے ہیں کہ عمران خان دو سیٹوں کے حقدار تھے مگر ان کی مانگ زیادہ سیٹوں کی تھی، سب پی ایم ایل کیو میں چلے گئے اور وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن گئی۔ جنرل مشرف اقتدار سے گئے تو یہی کنگز پارٹی تانگہ پارٹی بن گئی اور آج سیاسی پنڈت کہتے ہیں، اب یہی حشر خان صاحب کی پارٹی کا بھی ہونا ہے۔
آخر شب کے ہم سفر فیض نہ جا نے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی
اب فتنہ فساد بند ہوگا، جو بھی سربراہ آیا، سب اس کو مانیںگے اور اب ایک طویل جنگ ہے جو ہار یا جیت پر کھڑی ہے، وہ جنگ ہے روپے کے استحکام کی، ڈالر کی پرواز کو روکنے کی، معیشت کو مستحکم کرنے کی، شرح نمو کے بڑھانے، افراط زر کو قابو پانے کی، درآمدات کم کرنے اور برآمدات کو بڑھانے کی، قرضوں کا حجم کم کرنے کی، زرمباد لہ کے ذخائر بڑھانے کی۔
فوج اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، اب ضرورت ہے، اس فیصلے پر ڈٹ کر کھڑے ہونے کی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں جو رسوا ہوں گے وہ سیکڑوں درباری ہیں، جو ہر مکتبہ سوچ اور طبقے کے اندر موجود ہیں، ان میں دائیں، بائیں اور وسط کی کوئی تخصیص نہیں ہے، یہ وہ ہیں جو چاہتے ہیں فوج کی مداخلت جاری رہے اور ان کا اقلیت میں ہونے باوجود اقتدار پر قبضہ برقرار رہے لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، یہ غیرسائنسی اور غیرفطری عمل تھا، اس سے بیماریوں نے جنم لیا ، سانحہ ڈھاکا جیسے حادثات ہوئے، ہم جو ہندوستان سے بڑی معاشی طاقت تھے، اب قرضوں میں دبے ہیں۔
یہاں کی کی حکمران اشرافیہ ذہنی طور پر قلاش ہے اور ملک مالی طور پرکنگال ہو چکا ہے۔ ہم کشکول لے کر گھومتے ہیں سماج ارتقا نہ کرسکا، مذہبی رواداری کو انتہاپسندی سے قتل کرادیا گیا،جنرل ضیاالحق نے آمریت کے تحفظ کے لیے مذہب کا استعمال کیا بلکہ اس کے بعد کی لیڈشپ نے اس کام کو جاری رکھا ، عمران خان نے انتہاپسندی کے کلچر کو نئی جہتیں دیں اور ہماری نسلیں تباہ ہوگئیں۔
تاریخ دھندلی تو ہو سکتی ہے مگر تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی۔ تاریخ کے باب اگر بند کر دیے جائیں تب بھی تاریخ کا سفر جاری رہتاہے۔ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو ماڈریٹ ویلفیئر اسٹیٹ کے روپ میں دیکھتے تھے، جہاںسب برابر کے شہری ہوں، سب کو ترقی کے برابرمواقع حاصل ہوں، سب ایک ہی نصاب تعلیم پڑھتے ہوں۔
آ ئیے! ہم جناح کے ویژن کی طرف لوٹیں، واپس ڈھاکا چلیں۔ آئیے کہ واپس پرامن برصغیر کو لوٹ چلیں، اپنے ہمسائیوں سے اچھے تعلقات استوار کریں، تجارت کریں، ڈالر کمائیں، خوشحال بنیں، اپنے بچوں کو یکساں نصاب تعلیم پڑھائیں، اور اپنا معیار زندگی بلند کریں۔ بس یہی ہے...