دھرنوں کی قیمت

دھرنوں اور مارچ کی سیاست سے صرف اور صرف عوام ہی متاثر ہوتے ہیں


دھرنوں اور جلسے جلوسوں کی سیاست کو ختم کیا جائے۔ (فوٹو: فائل)

وہ سات نومبر کی رات تھی جب تیز شور کی آواز نے مجھے بیدار کردیا۔ میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے ننگے پاؤں والد محترم کے کمرے کی طرف بھاگا۔ اندر کا منظر خلاف توقع تھا، کیونکہ میں انہیں اچھی حالت میں چھوڑ کر بمشکل ایک گھنٹہ قبل ہی سونے کےلیے دوسرے کمرے میں گیا تھا لیکن ہر کوئی رو رہا تھا۔ والد محترم بے سدھ لیٹے ہوئے تھے، جبکہ میرا چھوٹا بھائی منہ کے ذریعے سانس دلا کر انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے لگا والد صاحب ہم سے جدا ہونے والے ہیں۔

زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ موت پر لکھنا، موت کو پڑھنا، کسی کی موت کی خبر سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا ایک الگ بات ہے، لیکن جب خود پر بیتے، جو خدا کرے کسی پر نہ بیتے، تو بس نہ پوچھیے۔ بہرحال پڑوسی الیکٹریشن کی مدد سے ہم نے آکسیجن سلنڈر کو کھولا، والد کو آکسیجن ماسک لگایا گیا جس سے ان کا آکسیجن لیول بہتر ہونا شروع ہوا۔ ایک فارمیسی والے مہربان نے بلڈ پریشر بہتر کرنے والے دو انجیکشن لگائے، جس سے ان کا گرتا ہوا بلڈپریشر بہتر ہوا اور انہوں نے آنکھ کھولی، اور ہم سب کی جان میں جان آئی۔ فوری طور پر ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا تاکہ انہیں ان کے معالج کے پاس ایم ایچ اسلام آباد شفٹ کیا جاسکے۔ ابھی یہ انتظام ہوہی رہے تھے کہ کسی نے بتایا عمران خان نے اپنے پیروکاروں کو حکم دے دیا ہے کہ پنڈی، اسلام آباد کے راستوں کو بند کردیا جائے، جس کی وجہ سے راستے بند ہیں اور حالات کشیدہ ہیں۔

دوسرا آپشن سرگودھا تھا۔ مگر بھیرہ سے سرگودھا تک کی سڑک کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جس پر سفر کرنا صحت مند شخص کےلیے ہی نقصان دہ ہے تو ایسے مریض کےلیے جو سیریس حالت میں ہو اور جس کےلیے ہر لمحہ قیمتی ہو، اس کےلیے ایسی سڑک پر سفر کرنا...? ہمارے پاس وقت انتہائی کم تھا. اسلام آباد ہم سے ڈھائی گھنٹے اور سرگودھا دو گھنٹے کی مسافت پر تھا، اسلام آباد کا سفر آرم دہ اور سرگودھا کا انتہائی تکلیف دہ تھا۔ لیکن عمران خان کی عظیم جدوجہد کی بدولت ہمیں رات بارہ بجے ایک انتہائی پرخطر سفر اختیار کرنا پڑا، جہاں ہماری منزل ڈسڑکٹ اسپتال سرگودھا کی ایمرجنسی تھی جو مرض کے حساب سے درست انتخاب نہیں تھی مگر حقیقی آزادی مارچ کی بدولت اور کوئی آپشن نہیں تھا۔

دھرنوں اور مارچ کی بدولت ایسی کئی رونگٹے کھڑی کردینے والی داستانیں جنم لیتی ہیں۔ دھرنے والے کتنی ہی ایمبولینسوں کو یہ کہہ کر راستہ نہیں دیتے کہ ہم خود ایمرجنسی میں ہیں۔ مریض پر جو گزرتی ہے سو گزرتی ہے لیکن لواحقین جس کرب سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ اس رات ہوا۔ مجھے پہلی بار لگا کہ ہم ملک میں نہیں جنگل میں رہ رہے ہیں جہاں پر ریاست نام کی کوئی چیز نہیں۔ جہاں پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔ جہاں پر چند ڈنڈے والے ریاست کی طاقت ختم کرنے کےلیے کافی ہوتے ہیں۔ جہاں پر شریف ہونا دنیا کا سب سے بڑا جرم ہے۔

آپ تصور کیجیے کہ ہم کس قدر بے رحم لوگ ہیں کہ ہم اپنے سیاسی مطالبات منوانے کےلیے دوسروں کو اذیت میں مبتلا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک کوئی مرتا ہے تو مرجائے ہمیں تو اپنی بات منوانے سے، ہمیں تو اپنا دھرنا کامیاب بنانے سے غرض ہے اور یہ سب کچھ مسلمان کررہے ہیں۔ جی ہاں وہی مسلمان جن کے نبی ﷺ نے فرمایا (مفہوم) مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ایک حصے میں تکلیف ہونے پر پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا (مفہوم) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مگر جناب ایسی باتیں ہم سوشل میڈیا پر پھیلا تو سکتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرسکتے۔

ملک کو اپنے ہاتھوں اور حرکتوں سے تباہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہے۔ یاد رکھیے! اول الذکر نقصانات کے علاہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بھوک، افلاس میں ان دھرنوں اور مارچوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دھرنوں سے ملکی معیشت کو 100 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ یہ نقصان لامحالہ طور پر غریب کی جیب سے ہی پورا ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دھرنوں اور جلسے جلوسوں کی سیاست کو ختم کیا جائے۔ سیاستدان سیاسی مسائل کو سیاسی طور پر حل کریں اور اب جبکہ عمران خان کی گھڑی اور نومبر کی چھڑی کا مسئلہ حل ہوچکا ہے تو براہِ کرم کم ازکم اس بات پر متفق ہوجائیے کہ اگر دھرنے اور جلسے جلوس وسیع تر ملکی مفاد میں ناگزیر ہوئے تو بھی سڑکیں اور شہروں کی داخلی گزرگاہیں بند نہیں کریں گے، ایمبولینسوں، ایمرجنسی میں داخل ہونے والے مریض کو بہرحال راستہ دیا جائے گا۔ اور یہ بات نہ ماننے والوں کے خلاف، کم ازکم یہ بات نہ ماننے والوں کے خلاف ریاست پوری طاقت سے حرکت میں آئے۔

آئیے ہم سب اپنی اپنی سیاسی جماعت سے مطالبہ کریں کہ وہ وطن عزیز کو دھرنوں کی سیاست سے پاک کرے۔ کیونکہ دھرنوں، سڑکیں بلاک کرنے کی قیمت بہرحال عوام کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے اور اسی میں معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑے پاکستان کی بقا ہے۔ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں