میرے درویش منش والد
کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا جو مل گیا اس پر شکر کیا اور جو نہیں ملا اس پر بھی اﷲ کا شکر ہی ادا کرتے دیکھا
دو برس ایک طویل عرصہ ہوتا ہے لیکن مجھے یہ کل کی بات لگتی ہے، وہ نومبر ایک خنک شام تھی ، میںحسب معمول دفتر سے گھر پہنچا اور بچوں سے پوچھا کہ ابو کیا کر رہے ہیں؟ جواب ملا ، وہ اپنے کمرے میں آرام کر رہے ہیں ۔
میرا یہ معمول تھا کہ گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے ابو جی سے گپ شپ لگاتا ، بعد میں کوئی اور کام کرتا تھا، اس دن بھی میں سیدھا ان کے کمرے میں پہنچا، وہ بستر پر دراز تھے، میں نے پوچھا کہ کچھ کھائیں گے ؟کہنے لگے، بھوک نہیں ہے۔
میں نے کہا کہ میں نے بھی کچھ نہیں کھایا' مل کر کھاتے ہیں تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے، میری بڑی بیٹی جو ان کی بہت لاڈلی تھی، اس نے اپنے بابا کو ہاتھ سے کھلانے کی کوشش کی تو بولے، ابھی کھانے کو دل نہیں کر رہا حالانکہ وہ اس کوکبھی انکار نہیں کرتے تھے۔
مجھے محسوس ہوا کہ وہ کچھ ٹھیک نہیں ہیں، میں نے اسپتال چلنے کا کہا تو انگلی سے اوپر کا اشارہ کیا۔ درویش منش اور فقیروں کی اولاد کو شاید علم ہو گیا تھا کہ اب اﷲ کے حضور واپسی کا سفرشروع ہونے کو ہے ، چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ وہ میرے ہاتھوں میں ہی اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔
شاید وہ میرے دفترسے واپسی کے منتظر تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ جب میرے والدین اپنے رب کے حضور پیش ہوئے تو میں ان کے پاس موجودتھا۔ انھوں نے آخری دم تک خدمت کا کوئی خاص موقع نہیں دیا، کبھی ناراضی کا اظہار نہیں کیا، اگر کوئی بات پسند نہ آئی تو خاموشی اختیار کرلی۔
کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا جو مل گیا اس پر شکر کیا اور جو نہیں ملا اس پر بھی اﷲ کا شکر ہی ادا کرتے دیکھا۔ کسی نے تکلیف پہنچائی تو اسے بھی درگزر کر دیا۔ کسی قسم کی حرص ، طمع و لالچ نہ تھا' فقیروں کی اولاد تھے ،ان کے مزاج میں امیری نہیں فقیری تھی ۔خواہشات کے اسیر ہر گز نہ تھے کم وسائل میں بھی اپنا بھرم اور وضع داری کوبرقرار رکھا۔ ہمیشہ اچھا پہنا اور اچھی سواری کو ترجیح دی۔
سائیکل اور موٹر سائیکل پر رپورٹنگ کی لیکن جب کچھ جمع پونجی ہو گئی تو پہلی گاڑی پرانے ماڈل کی مرسیڈیز خرید لی، ان کے بڑے بھائیوں کے پاس مرسیڈیز گاڑیاں تھیں، اس لیے شاید انھوں نے بھی آرام دہ سفر کے لیے اسی گاڑی کو پسند کیا ،گو کہ پرانی تھی لیکن آرام دہ تھی اور ہم گاؤں کا سفر اسی پرانی مرسیڈیز میں کرتے رہے ۔ غیر سیاسی باتیں کے قارئین ان کی کالے رنگ کی مرسیڈیز سے بخوبی آگاہ ہیں ۔
صاحب کشف بزرگوں کا فیض اور دعا تھی کہ لاہور سے دوردراز پہاڑوں میں گھرے ایک انتہائی پسماندہ گاؤں کے مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان کو لاہور کے ادبی اور علمی ماحول میں جگہ مل گئی ۔
بڑے بھائی نے مولانا مودودی رحمتہ للہ علیہ کے ہاں بجھوا دیا ،ایک خاص علمی ماحول میں تربیت ہوئی ،عربی اور فارسی کے جید اساتذہ کرام سے استفادہ کیا اور اپنی علمی پیاس بجھائی۔ان کے کالموںمیں فارسی اشعار انھیں دوسروں سے منفرد اور ممتاز کرتے تھے۔
حمید نظامی مرحوم کی رہنمائی اور نگرانی میں صحافت کے میدان میں اپنی جدو جہد کا آغاز کیا ۔ بتاتے تھے کہ بطور رپورٹر ان کے پاس کچھ ایسی معلومات بھی ہوتی تھیں جو خبر کی صورت میں شایع نہیں ہو سکتی تھیں تو انھوں نے لاہور نامہ کے عنوان سے کالم شروع کردیا ،جسے یحییٰ خان کے دور میں سیاست پر پابندی کے بعد غیر سیاسی باتیں میں بدل دیا۔
ان کے قارئین اور اخبار نویس ساتھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ اپنے کالم کے ذریعے اخبار نویسی کی معراج تک پہنچ گئے۔ان کے کالموں میں پاکستانیت کو اجاگر کیا جاتا رہا جس پر انھوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بہت بڑے ممدوح اور عقیدت مند تھے ۔کہتے تھے کہ بھارت سے پاکستان کو ڈاکٹر صاحب نے محفوظ کیا ہے ۔
ہندوستان کے خلاف لکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری نسلوں کو علم ہوناچاہیے کہ ہندو اگرچہ ہمارا جماندور ہمسایہ ہے لیکن وہ کبھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتا اور اس بات سے پاکستانی عوام کو مسلسل آگاہ رکھنا ہماری ذمے داری اور فرض ہے ۔
وہ اس طبقہ کے نقاد رہے جو بھارت کے ساتھ دوستی اور تعلق کو ضروری سمجھتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نظریاتی سرحد کو ایک صرف ایک لکیر گردانتا ہے ۔
غیر سیاسی باتیں کا لم اپنے عنوان کے برعکس اپنے اندر تمام تر سیاست سموئے ہوئے ہوتا تھا ،ان کی قلم کی کاٹ سے بڑے بڑے حکمران گھبرانے کے ساتھ رہنمائی بھی حاصل کرتے تھے۔
چند مرتبہ بڑے سرکاری عہدوں کی پیشکش بھی ہوئی لیکن انھوں نے بطور ایک اخبار نویس کے آزاد زندگی کو ترجیح دی۔ زندگی میں کسی حکومت کی جانب سے کوئی اعزازی تمغہ بھی حاصل کرنے کے رودار نہیں رہے، پرویز مشرف کے دور حکومت میں اعزازی تمغہ کے لیے رابطہ کیا گیا تو معذرت کر لی اور کہا کہ میرا تمغہ میرے قارئین ہیں جو میرا کالم پڑھ کر مجھے عزت بخشتے ہیں ۔
یہ تھے میرے درویش منش والد عبدلقادرحسن جن کی آج دوسری برسی ہے ۔والدہ کی دعاؤں کا سایہ تو کئی برس پہلے ہی چھن گیا تھا، دو برس قبل والد کی وفات کے بعد دعاؤں کی یہ آخری چادر بھی اتر گئی ۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ میرے مرحوم والدین کے لیے سورۃ فاتحہ اور قل شریف پڑھ کر دعا کر دیں۔