خیالات کی حقیقت کیا ہے۔۔۔

کسی چیز کے متعلق ترجیحات بدلنے سے خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں


فرحت علی بیگ March 30, 2014
کسی چیز کے متعلق ترجیحات بدلنے سے خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

عام بول چال میں لفظ ''خیال'' کو ہمارے ہاں سمجھ، جھلک، عقل اور سوچ کے ہم پلہ استعمال کیا جاتا ہے۔

خیالات کا ایک دھارا ہے جو ہمارے دل و دماغ میں چل رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک خیال ہمارے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا ہے جس کے پیچھے ہماری سوچ لپکتی ہے۔ خیال اور سوچ الگ الگ اصطلاحیں ہیں، جس تیزی سے کسی چیز کے متعلق، ہماری ترجیحات ترتیب پاتی ہیں اسی تیزی سے خیالات کا آنا جانا متعین ہوتا ہے۔ کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کا خیال، اس چیز سے متعلق کوئی بھی امکانی صورت ہو سکتی ہے جس کی ابتدائی شکل ہمارے ذہن میں جنم لیتی ہے۔ ہمارا خیال، نظرئیے سے تصدیق کے مراحل طے ہونے تک، ہماری سوچ کہلاتا ہے۔

ایک صحت مند دماغ میں کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کے مثبت اور منفی پہلوئوں کے متعلق سوچ کی ابتداء کیلئے اس چیز سے متعلق محرکات مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ بچپن سے آگے کسی بھی دور تک چیز کے متعلق حاصل شدہ معلومات

2۔ امکانی صورت ِ حال کا خاکہ

3۔ جبلتیں ( تجسس، ملکیت کا احساس وغیرہ)

4۔ حواسِ خمسہ (آنکھ، کان، جلد، دماغ وغیرہ)

5۔ ارادہ

6۔ ترجیحات

مندرجہ بالا محرکات ہماری کسی بھی سوچ کی ابتداء اور اس کے منطقی نتیجے کا تعین کرتے ہیں۔ سوچ کا یہ عمل حواسِ خمسہ نہ ہونے کی صورت میں محسوسات سے بھی شروع ہوسکتا ہے۔ جو لوگ آنکھوں اور سماعت سے محروم ہوتے ہیں ان میں بھی سوچ کا عمل جاری ہوتا ہے۔ ہمارے خیالات کے عمل کو شروع کرنے میں ہماری جبلتیں اور حواس ِ خمسہ کا بڑا ہاتھ ہے جو ہمیں معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ مثلاً تجسس انسان کی جبلت ہے، جس کے تحت ہم ہر نئی چیز کو اختیار کرنے کے لئے بے چین ہوجاتے ہیں۔ اس چیز کے دستیاب ہونے کے امکانات بھی اہمیت رکھتے ہیں، مثلاً جب پاکستان میں سب سے پہلے کسی شخص نے موبائل کے متعلق معلومات کو سنا ہو گا تو ان معلومات کو رفتہ رفتہ اکٹھا کرتا چلا گیا ہوگا۔

اس کے رنگ، ہئیت، سائز، قیمت، برتنے کے طریقے اور اس کے دیگر فوائد کو ذہن میں سٹور کر لیا اور موبائل کا ایک ابتدائی خیال ذہن میں قائم کر لیا ہو گا۔ پھر ایک دن موبائل اس کے پاس آ موجود ہوا، اس نے اس کو برتا اور اس کے ذہن میں موجود خیالات نے عملاً اپنی تصدیق حاصل کرنے کے بعد موبائل کے فائدہ مند ہونے کی تصدیق کی تو اس شخص نے اپنے مذہبی نظریات سے اس کے جائز ہونے کی تصدیق کے بعد حتمی طور پر موبائل کا استعمال شروع کر دیا۔ اس ترتیب میں فرق بھی ہو سکتا ہے، شروع میں ہی محض ابتدائی معلومات کے بعد ہی نظرئیے سے کسی چیز کی اتباع کا فیصلہ کرایا جا سکتا ہے۔ ہماری سوچیں، دن کے ہر پل اسی طرح خود کار طریقے سے کام کرتی ہیں۔

اگر آپ دی گئی مثال کے مطابق سلسلہ وار ترتیب دیکھیں تو کسی بھی چیز کے منفی یا مثبت پہلوئوں کے اعتبار سے ترتیب یہ ہوئی۔

1۔ معلومات

2۔ معلومات کا تجزیہ

3۔ معلومات پر مبنی عملی تجربہ

4۔ چیز سے متعلق سوچے گئے امکانات کی عملی تصدیق

5۔ حتمی رائے/ فیصلہ



کسی بھی مادی و غیر مادی چیز یا کسی شخصیت کے متعلق ہماری سوچ کا تقریباً یہی سانچہ ترتیب پاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بعض صورتوں میں تصدیق اور بلاآخر فیصلے کے لئے ہمارا تکنیکی علم، سیکولر یا مذہبی رویہ کام آتا ہے۔ سیکولر رویے میں چیز کی موزونیت، ذاتی پسند نا پسند اور معاشرتی دبائو اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ بعض لوگوں میں مذہب کی صورت میں ان کا مذہبی نظریہ اس چیز کے متعلق حتمی رائے یا فیصلے کے لئے کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کا اپنے مذہبی نظریے سے تصدیق کے بعد ہی دلی سکون ہوتا ہے۔

اوپر بیان کردہ پانچ نکات ایک مکمل انسانی سوچ کی تکمیل کے مدارج ہیں۔ بعض معاملات میں سوچ کے عمل کے دوران، ہم محض معلومات اور ان کے تجزیے کے مدارج ہی طے کرتے ہیں۔ مثلاً کسی شخص کی بنیادی معلومات ملنے پر ہم نے ان کا تجزیہ کیا اور وہ تجزیہ شدہ معلومات ذہن میں جمع کر لیں، پھر کہیں ضرورت پڑنے پر اس تجزیے کا استعمال کر لیا تو اس حد تک ہی سوچ کا عمل ختم ہو گیا۔ بعض دفعہ اس سے آگے کے مدارج بھی ضرورت پڑنے پر پورے کئے جاتے ہیں۔ سوچ کا یہ عمل کسی بھی درجے تک کا ہو، یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ آپ کا درست اسلامی نظریہ کرے گا، اس طرح سے اسلام میں علم کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ سوچ کا یہ عمل بعض صورتوں میں چند سیکنڈز میں مکمل اور بعض اوقات ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ سوچ کا یہ عمل مختلف حوالوں سے علمی سطح پر تمام زندگی جاری رہتا ہے، لیکن کسی چیز کے خریدنے کا فیصلہ کرنے کے اعتبار سے چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتا ہے۔

علمی سوچ کا عمل ساری زندگی اس لئے جاری رہتا ہے کیونکہ کسی مادی یا غیر مادی چیز کے متعلق حتمی علم کی تصدیق کا مسئلہ درپیش رہتا ہے جبکہ کسی چیز کے خریدنے کی سوچ کا فیصلہ چند سیکنڈز میں اس لئے ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی تصدیق اور حتمی رائے تک کے مراحل مکمل ہو چکے ہوتے ہیں۔ زندگی سے متعلق مادی، غیر مادی اشیاء اور متعدد شخصیات کے حوالے سے ہمارے ذہن میں معلومات پر مبنی ایک نظریاتی ماخذ (Ideological Data Base) وجود میں آتا چلا جاتا ہے جس میں ہمارا مذہبی نظریہ، معاشرتی نظریہ، معاشی نظریہ وغیرہ ہماری اپنی ذاتی نفسیات، مذہبی رجحان، معاشرت، معاش اور تعلیم وغیرہ کے پس منظر کے ساتھ، اپنے اپنے حلقہ عمل داری میں جگہ بناتے چلے جاتے ہیں۔

بچپن سے لڑکپن تک اور بعض صورتوں میں بلوغت تک بھی محض ایک معلوماتی ماخذ (Information Data Base ) بنتا ہے جو آگے چل کر نظریاتی ماخذ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ایک سکول جانے والے بچے میں ہم اسی Information Data Baseکے ذخیرے میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے متمنی ہوتے ہیں۔ لڑکپن میں کبھی اس Information Data Base میں ہمیںIdeological Data Base کی ایک جھلک بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے دنیا کے کرڑوں انسانوں کے معاشی اور سماجی انجن کی بھر پور حرکت کو انسانی جبلتوں اور نظریات کا مرہونِ منت کر دیا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ تانہ بانہ اس خوبصورتی سے بنا ہے کہ انسانوں کے لئے زندگی کے اس دھارے میں شامل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایک خیال یا سوچ کسی بھی طرح سے غیر اہم نہیں ہے، دنیاوی و اخروی معاملات میں اسی ایک خیال سے ہمارے نظریات اور پھر اعمال جنم لیتے ہیں۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔''بلکہ تم یہ خیال کرتے تھے کہ اللہ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر ہی نہیں، اور اسی خیال نے جو تم اللہ کے بارے میں رکھتے تھے، تم کو ہلاک کر دیا اور تم خسارے میں پڑ گئے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں