ایں خانہ ہمہ آفتاب است

ابھی کل پرسوں کی بات ہے، ایک محفل میں گزر ہوا، اٹھنے لگے تھے کہ ایک بھولا بھالا چہرہ نظر آیا۔۔۔


Intezar Hussain March 30, 2014
[email protected]

مولانا حالیؔ نے کیا خوب کہا تھا ؎

شہر میں کھولی ہے حالیؔ نے دکاں سب سے الگ

مال ہے نایاب' پر گاہک ہیں اکثر بے خبر

ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ نیر علی دادا بھی اپنے وقت کے مولانا حالی ہیں۔ ویسے تو ان کی نیرنگ گیلری بھی شہر کی اور آرٹ گیلریوں کی طرح ایک آرٹ گیلری ہے۔ مگر تھوڑا جھانک کر دیکھو تو پتہ چلے گا کہ بظاہر یہ سیدھی سچی آرٹ گیلری ہے مگر اپنے مال کے حساب سے یہ سب سے الگ دکان ہے۔

یہاں مہینے کے مہینے دادا صاحب جمعے کی مبارک شام بطور خاص اپنی دکان سجاتے ہیں۔ پہلے اگلے پچھلے بھلے دنوں کی موسیقی سنوارتے ہیں کچھ کچی کچھ پکی۔ پھر باتیں۔ وہ بھی کچھ کچی کچھ پکی۔ کچھ ہلکی پھلکی' کچھ بھاری بھر کم۔ ڈاکٹر مبّشر حسن زندگی میں کتنا کچھ کر چکے ہیں' اب یہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ آگے حد ادب ہے۔

پھر تھوڑا چائے پانی۔ آخر میں تھوڑی شاعری اس محفل میں ایک عدد شاعر ہمیشہ دستیاب رہتا ہے۔ آگے اپنے شہزادؔ احمد تھے۔ انھوں نے اس محفل کو بہت آباد رکھا۔ وہ تو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ہم سمجھے کہ محفل میں خلا پیدا ہو گیا۔ ایسا اب کہاں سے لائیں کہ اس خلا کو پر کرے۔ مگر نہیں زمانہ کبھی شاعر سے خالی نہیں رہا کرتا۔ شاہنواز زیدی جو ہیں۔ شہزاد کے ہوتے ہوئے ذرا دبے دبے رہتے تھے۔ اس عزیز کے گزر جانے کے بعد اب خوب چمکے ہیں۔ اور ابھی پچھلی محفل میں ایسی غزل سنا کر گئے کہ محفل کو لوٹ لیا ؎

یہی شہر ہے' یہی دشت ہے' یہی بُود ہے یہی ہست ہے

یہیں آ کے خیمے لگائیں گے' اسی دھول میں اسی خاک میں

اسی راہ میں' اسی چاہ میں' اسی دیس میں' اسی بھیس میں

ہمیں آپ بس یہیں پائیں گے' اسی دھول میں اسی خاک میں

مرے صوفیوں کا کمال ہے' نہ تو حُزن ہے نہ ملال ہے

سو دھمال ناچتے جائیں گے' اسی دُھول میں اسی خاک میں

ہاں اور ابھی کل پرسوں کی بات ہے۔ ایک محفل میں گزر ہوا۔ اٹھنے لگے تھے کہ ایک بھولا بھالا چہرہ نظر آیا۔ چلتے چلتے ایک کتاب ہاتھ میں تھما دی۔ کہا کہ شاعری کرتی ہوں۔ شاہنواز زیدی کی بہن ہوں۔ وقت ملے تو ایک نظر ان شعروں پر بھی ڈال لینا۔ خیر نظر تو ڈال لیں گے۔ مگر یہ کیا کہ یک نہ شد دو شد۔ بھائی صاحب کم تھے کہ بہن بھی آن براجیں۔ تو لیجیے چند ایک شعر ان کے بھی سن لیجیے۔

سر مژگاں چمکتا ہے جو تارا

یہ خون دل ہے آرائش نہیں ہے

مرے مٹنے کے لاکھوں سلسلے ہیں

مرے بچنے کی گنجائش نہیں ہے

............

من ہی من میں سوچ کر کچھ مسکراتی لڑکیاں

تحفہ افلاک ہیں' ہنستی ہنساتی لڑکیاں

کتنے رنگوں سے مزین کر گئیں ساری فضا

اوڑھ کر خوشبو کا آنچل آتی جاتی لڑکیاں

............

جانے کب تک ان کے چہروں پر رہے گی روشنی

دیکھ کر میں سوچتی ہوں مسکراتی لڑکیاں

کچھ شعر نذر ناصرؔ کاظمی ہیں وہ بھی دیکھیے ؎

بوجھل اشک بھری ندی

آنکھوں سے بہہ لیتی کاش

بات بھی کھوئی بتلا کے

من کی من میں رہتی کاش

سچائی کی کھوج بری

سپنوں ہی میں رہتی کاش

............

آنکھوں کو خواب کا کوئی منظر نہیں ملا

رستے ہر ایک سمت ملے گھر نہیں ملا

آنکھیں ترس رہی تھیں پہ شدت کی دھوپ میں

بادل کا ایک ٹکڑا بھی سر پر نہیں ملا

نام ہے افشاں سجاد۔ ''منڈی بہائو الدین کے ایک سادات گھرانے میں چار بہنوں اور چار بھائیوں کے بعد گیارہ میں سے نویں نمبر پر پیدا ہونے والی بچی''۔ لیجیے کیا خوب شعر یاد آیا ؎

ایک دو تین چار پانچ چھ سات

آٹھ نو دس تلک تو تھی اک بات

یہ بہن بھائی دس کے ہندسے کو پھاند کر گیارہ کے ہندسے تک پہنچ گئے۔ گیارہ کے گیارہ سب گنوں پورے۔ کوئی مصور' کوئی نغمہ گر' کوئی شاعر۔ گھر کیا ہے۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ اپنی اپنی جگہ سب چمکتے ستارے ہیں مگر گیارہ پر آ کر گاڑی جانے کیسے رک گئی۔ تاریخ میں تاریخ سے بڑھ کر دیو مالائوں میں ایسی ایسی مائیں گزری ہیں کہ جنہوں نے سو سو بیٹے جن کر جیالوں کی قطاریں لگا دی ہیں۔ یہاں بس گیارہ ؎

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔ اور اپنی اپنی ہمت

خیر یہ بہن بھائی جتنے بھی ہیں گیارہ یا بارہ پوری ایک ٹیم ہے۔ جیتے رہیں۔ اپنے اپنے فن میں سب کامل ہیں اور شاہنواز زیدی نے تو کسی ایک فن پر قناعت نہیں کی ہے۔ موصوف خالی شاعر نہیں ہیں۔ شاعر سے بڑھ کر مصور ہیں۔ گلوکار ہیں۔ اداکار ہیں۔ اور ہاں لگے ہاتھوں ڈیزائنر بھی ہیں۔ ہر فن میں کُشتوں کے پشتے لگاتے ہیں۔ خاص طور پر شاعری میں۔ اس سے پہلے شاعری کے دو مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ ایک مجموعہ کا نام ہے ''آئینہ دار''۔ دوسرا مجموعہ اصل میں ٹیگور کی گیتا نجلی کے منظوم ترجموں پر مشتمل ہے۔ اب تیسرا مجموعہ 'تماشا' کے عنوان سے شایع ہوا ہے غزل ایسی لکھتے ہیں کہ اسے سہل ممتنع کہیے۔ مثلاً ؎

پہلے جیسا نہیں رہا ہوں

میں اندر تک ٹوٹ گیا ہوں

جیسے کاغذ پھٹ جاتا ہے

دو ٹکڑوں میں پڑا ہوا ہوں

تصویروں کا قحط پڑا ہے

اور میں رنگ بہا بیٹھا ہوں

کوئی میرا حال نہ پوچھے

میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں

ایک اور غزل دیکھیے ؎

آزردہ کسی حال میں رہتے نہیں بابا

مشکل کو جیا کرتے ہیں سہتے نہیں بابا

جس ظرف میں ہو ویسا ہی ہو جاتا ہے پانی

تم کس لیے اوقات میں رہتے نہیں بابا

مٹی پہ لیے بیٹھے ہیں مٹی کے کھلونے

ہم کوئی بڑا بول تو کہتے نہیں بابا

سمجھ لیجیے کہ یہ دونوں بہن بھائی شاعری کی اقلیم کو فتح کرنے چلے ہیں اور ہاں افشاں سجاد کے مجموعہ کا نام ہے 'جو دل پہ گزرتی ہے'۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں