صرف آئینی ذمے داریاں نبھائیں گے


عبد الحمید December 02, 2022
[email protected]

جناب عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کے آخری دنوں میں کہا تھا کہ مجھے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔اُس وقت شاید کسی کے اوپر آشکار نہیں تھا کہ خطرناک ہونے سے ان کی کیا مراد ہے۔

جناب عمران خان نے حکومت سے نکلنے پر بہت سخت ردِ عمل دیا جو پہلے کسی نے نہیں دیا تھا، اقتدار سے نکلتے ہی حکومت اور اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے سخت زبان استعمال کی اور جلسوں جلوسوں کا پروگرام ترتیب دے دیا۔وہ اب تک ملک بھر میں بے شمار جلسے کر چکے ہیں۔

حکومت جانے سے پہلے تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے جا چکا تھا لیکن سوشل میڈیا کے مطابق اب عمران خان کی مقبولیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ وہ عوام کے کچھ طبقوں میں بہت چاہے جاتے ہیں اوریہی طبقہ ان کے جلسوں کو زینت بخشتا ہے۔

ان جلسوں جلوسوں کی وجہ سے جناب عمران خان کو یقین ہے کہ فوری جنرل الیکشن ہوجائیں تو وہ ہی کامیاب ہو کر اگلی حکومت بنائیں گے۔ عمران حکومت کی کمزور پالیسیوں اور نااہل ٹیم کی وجہ سے مہنگائی،بے روزگاری اور معیشت کی تباہی کی جو لہر اُٹھی تھی،غریب آدمی کی زندگی میں جو بھونچکال آیا تھا،عوام نے اسے بھلا کر ایک دفعہ پھر مالا عمران خان کے گلے میں ڈال دی ہے۔

ان کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔جلسے جلوسوں کی وجہ سے وہ فرنٹ فُٹ پر آ کر کھیلنے،اپنے آپ کو ایک بڑا اسٹیک ہولڈر ثابت کرنے،اگلے انتخابات کے لیے تیار رہنے اور اپنے آپ کو Relevant رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرتے تو بہت ممکن تھا کہ وہ پاکستانی سیاست میں اپنا مقام کھو دیتے۔مسلسل جلسوں ،جلوسوں اور اسلام آباد پر یلغار کے لیے بے تحاشہ فنڈز چاہیئیں۔ عمران خان صاحب اتنے سارے فنڈز مہیا کر پا رہے ہیں،یہ بھی حیران کن ہے۔

پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ چیئر میں جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ندیم رضا اپنی مدتِ ملازمت مکمل کر کے اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی اضافی مدت پوری کر کے رخصت ہو گئے ہیں۔

ان کی جگہ دو لیفٹیننٹ جنرلزترقی پاکر چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ اسٹاف بن گئے ہیں۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بارے میں ہر کوئی بہت مثبت رائے رکھتا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ نئی صورتحال میں جناب عمران خان اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی لائیں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا تھا کہ فوج اب غیر سیاسی ہو چکی ہے۔

جناب عمران خان چاہتے ہیں کہ ادارے نیوٹرل اور غیر سیاسی نہ ہوں بلکہ اپنا سارا وزن ان کے پلڑے میں ڈالیں۔پچھلے چند دنوں میںجناب اسد عمر اور شاہ محمود قریشی اداروں کو کھلی دعوت دیتے نظر آئے کہ وہ اپنا نیوٹرل کردار چھوڑ کر پی ٹی آئی کی سپورٹ کریں۔

وزاتِ عظمیٰ سے نکلنے کے بعد جناب عمران خانIn his own meritایک مقبول رہنما بن چکے ہیں۔ اگر عمران خان اور ان کی پارٹی اداروں کی بیساکھی چھوڑ کر اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا شروع کر دیں تو شاید ان کو کسی کی ضرورت نہ رہے لیکن نظر یہ آتا ہے کہ اُن کو اپنے آپ پر مکمل بھروسہ نہیں۔دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

لانگ مارچ کے اختتام پر راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جناب عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ اسلام آباد نہیں جا رہے بلکہ وہ موجودہ کرپٹ نظام)بقول ان کے(کا حصہ نہیں رہنا چاہتے،اس لیے وہ اپنے ساتھیوں اور تحریکِ انصاف کی پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعداسمبلیوں سے استعفے دے دیں گے۔

اسلام آباد نہ جانے کا اعلان رانا ثنااﷲ اور پی ڈی ایم کی کامیابی ہے۔ جناب عمران خان نے جلسے میں اعلان کے بعد لاہور میں مشاورت شروع کر دی ہے اور اگلے چند دنوں حتمی فیصلہ ہوجائے گا کہ اسمبلیوں سے کب استعفے دینے ہیں۔

جلسے جلوسوں کی جمہوریت میں بہت اہمیت ہے۔یہ ہر ایک کا حق ہوتا ہے لیکن جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے سڑکیں بلاک ہوتی ہیں،کاروبارِ زندگی ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ہماری پہلے سے انتہائی تباہ حال معیشت مزید دباؤ میں آتی ہے اور عام آدمی خاص کر دیہاڑی دار مزدوروں کے کمائی کے مواقعے ختم ہو جاتے ہیں۔اسمبلیوں سے استعفے دینا ایک آخری اقدام ہے لیکن یہ آئینی راستہ ہے ۔

اس لیے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔قومی اسمبلی سے تو تحریکِ انصاف پہلے ہی مستعفی ہو چکی ہے۔خیبر پختون خوا اور پنجاب سے مستعفی ہونا ایک بڑا قد م ہو گا۔سندھ اسمبلی سے تحریکِ انصاف کے استعفوں سے کچھ نہیں ہوگا اور خالی سیٹوں پر نئے انتخابات ہو جائیں گے البتہ ایم کیو ایم کو بہت فائدہ ہو گا اور وہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی بن کر لیڈر آف دی اپوزیشن کا منصب لے لے گی۔

بلوچستان میں تحریکِ انصاف کے دونوں ممبران استعفے نہیں دیں گے۔خیبر پختون خواہ میں تحریکِ انصاف اتنی مضبوط ہے کہ دوبارہ الیکشن میں بھی کامیابی اسی پارٹی کی ہو گی۔پنجاب کی صورتحال بڑی دلچسپ ہے۔تحریکِ انصاف کو ن لیگ پر تھوڑی سی ہی عددی برتری حاصل ہے، ایسے میں اگر جناب عمران خان عام انتخابات نہ لے سکے اور خالی نشستوں پر الیکشن ہوئے تو تحریکِ انصاف اور ق لیگ کو نقصان ہو گا۔غالب امکان یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی خالی کی ہوئی نشستوں پر انتخابات کی صورت میں ن لیگ چند سیٹیں لینے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔

یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ساری کی ساری سیٹیں تحریکِ انصاف کو ہی واپس ملیں۔ ایسی صورت میں تحریکِ انصاف پنجاب اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کھو سکتی ہے۔ ہاں اگر عمران خاں صاحب عام انتخابات جلدی کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو موجودہ وفاقی حکومت بہت مشکل میں ہو گی۔معیشت پہلے ہی تباہ ہے۔شنید ہے کہ جناب پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں۔ نئے آرمی چیف کا ریکارڈ اور شہرت بہت اچھی ہے۔

ادارے اگر ملکی گندی سیاست سے دور رہتے ہیں تو یہ بہت احسن قدم ہوگا۔سیاسی پارٹیاں الجھاؤ پیدا کرنے سے باز نہیں آتیں تو ان کو معاملات خود طے کرنے دیں ۔ادارے سیاست سے الگ رہتے ہیں تو ملک میں آگے چل کر سیاسی استحکام بھی آئے گا،جمہوریت مستحکم ہو گی اور ادارے اپنے کام سے کام رکھ کر مضبوط بھی ہوں گے اور ان کی عزت و وقار میں بھی اضافہ ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں