میثاق ماحولیات وقت کی ضرورت
اب ماحول کا تحفظ اور موسمی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے
سیاست اور ماحولیات کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے جب کہ ماضی قریب تک عام طور پر ایسا خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ اور اس کے باعث موسموں میں ہونے والی تبدیلیوں نے لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایک دہائی پہلے تک سیاسی جماعتوں کے منشور میں اوّل تو ماحولیاتی مسائل کا تذکرہ نہیں ہوتا تھا اور اگر کسی جماعت میں یہ مسئلہ اٹھایا بھی جاتا تھا تو اسے ترجیحی نوعیت حاصل نہیں ہوا کرتی تھی۔ کیا اس کا مفہوم یہ لیا جائے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے رہنماؤں اور حکومتوں کو اس امر کا کوئی علم نہیں تھا کہ کرۂ ارض کتنی تیزی سے فنا کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ظاہر ہے ایسی بات نہیں تھی، سب کو صورتحال کی سنگینی کا پورا ادراک تھا تاہم اس مسئلے کو اٹھانے سے ہر ملک میں موجود طاقتور طبقات کے مخصوص مفادات پر ضرب پڑسکتی تھی، لہٰذا اس انتہائی اہم مسئلے کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا، جس کے نتائج کا سامنا آج دنیا کے تمام ملکوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اب ماحول کا تحفظ اور موسمی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے اور کوئی سیاسی جماعت اسے نظرانداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
امریکا کے پچھلے صدارتی انتخابات میں ماحول اور موسمیاتی تبدیلی کا معاملہ فیصلہ کن اہمیت اختیار کرگیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی قدامت پسند ری پبلکن پارٹی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھی کہ موسمیاتی تبدیلی یا عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
اس کے برعکس ٹرمپ کی مدمقابل ہیلری کلنٹن اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی اسے نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرناک مسئلہ تصور کرتی تھی، تاہم جب انتخابات ہوئے تو رائے دہندگان کی بڑی اکثریت نے ٹرمپ کے خیالات کو پذیرائی عطا کی اور وہ برسراقتدار آگئے۔ ٹرمپ کے دور حکومت میں موسمی تبدیلیوں کے منفی نتائج کا سلسلہ تیزتر ہوتا چلا گیا۔
امریکا کے موسموں میں غیرمتوقع تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ اس دوران کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی پھیلادی۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ 21 ویں صدی کی دوسری دہائی میں اچانک ایک ایسا وائرس پوری دنیا میں پھیل جائے گا جس پر فوری قابو پانا ناممکن ہوگا۔ کووڈ۔19 کی عالمی وبا کا سب سے زیادہ نقصان امریکا کو پہنچا جہاں اس وائرس سے 10 کروڑ افراد متاثر اور 11 لاکھ امریکی ہلاک ہوگئے۔
اس مہلک وبا نے امریکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ صدر ٹرمپ اس وائرس کی سنگینی کو مسلسل نظرانداز کرتے رہے اور جب حالات قابو سے باہر ہوگئے تو انھوں نے اس وائرس کو سیاسی رنگ دے کر اپنی کوتاہی چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ انھوں نے کورونا وائرس کو چینی وائرس کہنا شروع کردیا۔
ٹرمپ کے زوال میں دیگر عوامل کے ساتھ کووڈ۔ 19 کی عالمی وبا کے ضمن میں ان کے غیرسنجیدہ رویے اور پالیسیوں کا کافی عمل دخل تھا۔
کووڈ کی عالمی وبا نے اس حقیقت کو آشکار کردیا کہ یہ وائرس بھی اس لیے پیدا ہوا تھا کہ انسان نے فطرت اور قدرتی ماحول کو اپنے مفاد کے لیے بے دردی سے استعمال کیا تھا۔ جب حکومتیں جنگل کاٹ کر شہروں کو توسیع دیں گی اورجنگلی حیات کے مساکن اور انسانی آبادیوں میں ہزاروں برسوں سے قائم فاصلوں کو ختم کردیں گی تو انسان اور کسی جانور یا پرندے کے اختلاط سے ایسے مہلک وائرس پیدا ہوں گے جن پر فوراً قابو پانا ممکن نہیںہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کووڈ کی عالمی وبا نے ماحولیات کو صرف کسی ایک ملک کا نہیںبلکہ عالمی مسئلہ بنادیا ہے۔
اٹھارہویں صدی میں ایک انقلاب رونما ہوا جس نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ صنعتی انقلاب آنے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے بہت سے ملکوں میںبڑے بڑے کارخانے زہریلا دھواں اگلنے لگے، زمین پر لاتعداد ریل گاڑیاں، ٹرک اور کاریں دوڑنے لگیں، فضا پر ہوائی جہازوں نے قبضہ کرلیا، سمندروں میں تجارتی اور جنگی بحری جہازوں نے ہل چل مچادی اور کرۂ ارض کی فضا پر زہریلی گیسوں، کاربن ڈائی آکسائیڈ نے اوزون کی تہہ میں سوراخ کرنا شروع کیا، رفتہ رفتہ یہ سوراخ ایک شگاف میں تبدیل ہوگیا۔
ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کو اس کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ معاشی ترقی کے نام پر وہ دنیا کی بقاء کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع کے لالچ میں ان ملکوں نے دنیا کو عالمی جنگوں کی بھٹی میں جھونک دیا جس میں کروڑوں معصوم اور بے گناہ انسان ہلاک ہوگئے۔ خام مال اور منڈیوں کے حصول کی جنگ جب ختم ہوئی تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
اوزون کا شگاف کافی بڑھ گیا تھا جن سے گزر کر بالائے بنفشی، شعاعوں نے کرۂ ارض کے درجہ حرارت کو بڑھانا شروع کردیا۔ ایک دن وہ وقت بھی آگیا جب عالمی حدت میں اضافے سے موسموں کا توازن بکھرنے لگا۔ گرمی بڑھی تو گلیشیئر پگھلنے لگے جس سے دریاؤں میں پانی بڑھا اور سیلاب آنے لگے۔
سمندروں کی سطح اونچی ہونے لگی اور متعدد ساحلی ملکوں کا وجود خظرے میں پڑگیا۔ گرمی سے آبی بخارات تیزی سے پیدا ہوئے اور دنیا میں غیرمتوقع بارشیں ہونے لگیں۔ کبھی گرمی کا موسم طویل ہوا تو کبھی سردیوں کا دورانیہ بڑھ گیا۔ بارش کے موسم میں بارشیں نہیں ہوتیں اور خشک سالی سے فصلیں برباد ہوجاتی ہیں۔ جب بارش کی ضرورت نہیں ہوتی تو اچانک بارشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
1850 کے بعد سے دنیا کا درجہ حرارت ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ صدی کے دوران اس اضافے کو کم سے کم 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کس طرح رکھا جائے۔ ا یسا نہ کیا گیا تو آب و ہوا اور موسم کی تبدیلی ہماری موجودہ زندگی پر بری طرح اثرانداز ہوگی۔ دنیا کے بعض ملکوں میں گرمی اتنی بڑھ جائے گی کہ وہاں انسان کا رہنا مشکل ہوجائے گا۔
پاکستان جیسے کئی ملکوں میں پانی کی شدید قلت کے باعث غذائی بحران پیدا ہوجائے گا۔ دنیا میں موسمی تبدیلیاں ہوں گی تو اس کے اثرات صرف زراعت پر نہیں بلکہ جنگلی حیات پر بھی پڑیں گے۔
ماحول اور موسم کی تبدیلی کی وجہ سے بہت سے جانور اور پرندے یا تو معدوم ہوجائیں گے یا پھر وہ کہیں اور ہجرت کرجائیں گے۔ دنیا میں معدنی توانائی کے استعمال کو کم سے کم کرنا ہوگا کیونکہ تیل، گیس اور کوئلے کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوکر درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
ہمارے ملک کا حالیہ سیلاب بھی موسمی تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کا 33% حصہ سیلاب سے براہ راست متاثر ہوا ہے۔ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ سیکڑوں معصوم لوگ زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور کروڑوں متاثرین آج بھی مدد کے منتظر ہیں۔
پاکستان کے ہولناک سیلاب نے پوری دنیا کی توجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کی جانب مبذول کرادی ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2030 تک دنیا کو ان موسمی تبدیلیوں کے نقصانات کی تلافی کے لیے 290 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر قابو پانے کی مہم چلارہے ہیں۔ تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملک بالخصوص برطانیہ اور یورپ اس مسئلے میں زیادہ تعاون کرنے پر تیار نظر نہیں آتے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی مسئلے پر تنہا قابو نہیں پاسکتے لیکن وہ اپنے سیاسی اختلافات اور مصلحتوں سے بالاتر ہوکرماحولیات کے مسئلے پر ایک میثاق پر متفق ہوکر ترقی یافتہ ملکوں کو بہت کچھ کرنے پر ضرور مجبور کرسکتے ہیں۔
اب دیکھنا ہے کہ کون سا ترقی پذیر ملک اس کام میں پہل کاری کرتا ہے۔ کاش اس مہم کا آغاز پاکستان کردے۔