عمران خان اور ق لیگ اتحادی رہیں گے
ق لیگ کی ایک بڑی خوبی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عدم ٹکراو کی پالیسی ہے
مسلم لیگ ق کی قیادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عملی سیاست کے قائل ہیں اورسیاسی مہم جوئی یا کسی نظریاتی کشمکش کا حصہ نہیں ہوتے ۔ وہ ٹکراو کے بجائے مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، ان کی بڑی خوبی لوگوں کو ساتھ ملا کر سیاست کرنا ہے۔
ان کی سیاسی وضع داری اور سیاسی جوڑ توڑ کی خوبی نمایاں ہے۔ ان کی ایک بڑی خوبی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عدم ٹکراو کی پالیسی ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی اس وقت پنجاب اسمبلی میں کم نمبرز کے باوجود وزرات اعلیٰ پر موجود ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان تحریک انصاف کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے تقسیم تاحال موجود ہے۔ چوہدری شجاعت حسین حکمران اتحاد میں موجود ہیں اور ان کے صاحبزادے وفاقی وزیر ہیں جب کہ چوہدری پرویز الٰہی عمران خان کے اتحادی اور پنجاب کے وزیر ہیں ۔ ان کے صاحبزادے مونس الٰہی عمران خان کے پرجوش حامی ہیں ۔
حالیہ سیاسی بحران میں عمران خان نے فوری انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری مونس الٰہی تواتر کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور اگر عمران خان اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا حکم دیں گے تو وہ ایک منٹ بھی تاخیر نہیں کریں گے ۔
ان کے بقول پنجاب کی وزرات اعلیٰ عمران خان کی امانت ہے اور وہ ان ہی کے فیصلوں کے پابند ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بعض سیاسی پنڈت بضد ہیں کہ وہ اسمبلی کو توڑنے کا کسی بھی صورت رسک نہیں لیں گے اور وہ عمران خان کو باور کرائیں گے کہ اسمبلیوں کی موجودگی ان کو سیاسی فائدہ دے گی وگرنہ اس طرح کے فیصلوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔
لگتا یہی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے بھی عمران خان کو یہ ہی مشورہ دیا ہے کہ وہ پہلے اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا ملک کے فیصلہ ساز فوری انتخابات کا فیصلہ کرچکے ہیں او راگر ایسا ہے تب تو ہمیں اسمبلیاں تحلیل کردینی چاہیے۔
عمران خان بھی سیاسی مہم جوئی سے گریز ہی کریں گے کیونکہ وہ جب محسوس کریں گے کہ حکومت اوراسٹیبلشمنٹ انتخابات کی طرف بڑھتی ہیں تو یہ فیصلہ کرکے انتخابی ماحول کو پیدا کریں گے۔
اگر انتخابات اکتوبر 2023میں ہی ہونے ہیں تو پھر اسمبلیوں کی تحلیل کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عمران خان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر ہمارے فیصلے سے عام انتخابات کے بجائے محض صوبائی انتخابات ہی ہونے ہیں تو اس مہم جوئی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ۔اس لیے تحلیل کا فیصلہ اسی صورت درست ہوگا جب عام انتخابات کا فیصلہ ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، اگر عمران خان بضد ہوتے ہیں کہ اسمبلیوں کو تحلیل ہی کرنا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ اس وقت مسلم ق کا کردار کیا ہوگا، اس حوالے سے بہت سے سیاسی پنڈت ق لیگ کی سیاست کو مستقبل کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ق لیگ شاید اسمبلی کی تحلیل کے حق میں نہ ہو۔
میرے خیال میں یہ امکان بہت کم ہے کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی عمران خان کے اتحادی ہیں اوران ہی کی حمایت کے ساتھ 2023کے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ انھیں مسلم لیگ ن کی قیاد ت کے رویے کا تلخ تجربہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سیاسی بقا تحریک انصاف سے ہی جڑی ہوئی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہی ہیں اورادھر ہی اپنی سیاست کرنا چاہتے ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کسی بھی پنجاب کی سیاست میں کسی اور کی بالادستی بالادستی نہیں چاہتی۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ، عمران خان اور حکومت کے بعض سرکردہ افراد میں جو بھی پس پردہ بات چیت چل رہی ہے اس میں چوہدری پرویز الٰہی کا بھی اہم کردار ہے ۔کیونکہ ان کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جو بھی مسائل ہیں وہ کم ہوں اور ٹکراو کی پالیسی نہ اختیار کی جائے۔اس لیے اگر عمران خان نے اسمبلیوں کی تحلیل کی بات کی ہے تو ایسا نہیں کہ انھوں نے اس فیصلے پر چوہدری پرویز الٰہی یا مونس الٰہی کو اعتماد میں نہ لیا ہو۔جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کی اولین کوشش اٹھ ماہ کے اقتدار کو بچانا ہے ۔چوہدری پرویز الٰہی مسلم لیگ ق کی اہمیت کو عملا سیاسی طور پر بحال کرنا ہے ۔ کیونکہ مسلم لیگ ق چاہے گی کہ ان کی بطور جماعت سیاسی بحالی ہو اور وہ بہتر سیاسی آپشن کو بنیاد بنا کر 2023 کے عام انتخابات میں حصہ لیں ۔
وہ عمران خان کے ساتھ مل کر انتخاب لڑنا چاہتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ تحریک انصاف ان کی جماعت کو ٹکٹوں کی تقسیم میں ایک معقول سیاسی حصہ دے اور ان کے افراد مشترکہ ٹکٹ پر انتخاب لڑیں ۔ اس لیے اگر اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ہے تو یقینا عمران خان کے ساتھ بہتر سیاسی ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے ۔ مسلم لیگ ق کے لوگ عمران خان کی انتخابی ٹکٹ پر انتخاب لڑیں تاکہ وہ عمران خان کی سیاسی مقبولیت سے فائدہ اٹھاسکیں ۔
مسلم لیگ ق کے پاس زیادہ سیاسی آپشن نہیں اور یہ جماعت بلاوجہ کی سیاسی مہم جوئی کرے گی ۔ ان کا بڑا سیاسی فائدہ اسی میں ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کا عمل جاری رکھیں ۔خود تحریک انصاف بھی اس اتحاد کی مدد سے آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ ق کی انتخابی سیاسی حکمت عملی سے فائدہ اٹھاسکتی ہے ۔کیونکہ پنجاب کی سیاست میں جو بڑی گروپ بندیاں ، خاندانی سیاست اور برادری پر مبنی دیہی سیاست ہے۔
اس پر چوہدری پرویز الٰہی کا تجربہ تحریک انصاف کے لیے بہتر ثابت ہوسکتا ہے ۔کیونکہ اگر تحریک انصاف نے پنجاب کی سیاست میں نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست کا مقابلہ کرنا ہے تو اس میں ان کو ق لیگ کی سیاسی حکمت عملی کا زیادہ فائدہ ہوگا۔
آصف زرداری اور شریف خاندان کی پوری کوشش ہے کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کو عمران خان کی حمایت سے دست بردار کرسکیں ، مگر کیا اس میں یہ کامیاب ہوسکیں گے ؟یہ ہی اہم سوال ہوگامگر اس حمایت کے لیے ق لیگ کو دینے کے لیے ان کے پاس کیا ہے، اس کا جواب بھی حکمران اتحاد کے پاس نہیں ہے ۔