سندھ حکومت کی ٖغفلت سے پروین رحمان قتل کے ملزمان جیل سے باہر آگئے
عدالت نے 21 نومبر کو ملزمان کو رہا کیا لیکن محکمہ داخلہ نے یکم دسمبر کو ملزمان کی گرفتاری کا نوٹی فکیشن جاری کیا
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر اور معروف سماجی کارکن پروین رحمٰن کے ملزمان کی رہائی کے معاملے پر محکمہ داخلہ سندھ کی کارکردگی کی قلعی کھل گئی۔
عدالت نے 21 نومبر کو پروین رحمن کے ملزمان کی رہائی کا فیصلہ سنایا اور فیصلے کی رو سے انہیں رہا کردیا گیا لیکن محکمہ داخلہ کو یکم دسمبر کو خیال آیا اور ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ملزمان رحیم سواتی اور اس کے دیگر 4 ساتھیوں سے پروین رحمن کے اہل خانہ اور دیگر کو جان کا خطرہ ہے لہٰذا نقص امن کے تحت انہیں گرفتار کرلیا جائے۔
ایکسپریس نیوز کی جانب سے رابطہ کرنے پر جیل حکام نے بتایا کہ ملزمان کی رہائی کے سلسلے میں سینٹرل جیل میں تحریری حکم نامہ بھی پہنچ گیا تھا اور مروجہ قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پانچوں ملزمان کو 21 نومبر کو ہی رہا کردیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ داخلہ نے یکم دسمبر کو حکم نامہ جاری کیا کہ مقتولہ پروین رحمن کی بہن و دیگر اہل خانہ ، اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے ڈائریکٹر اور اسٹاف کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے لہٰذا پانچوں ملزمان کو ایم پی او کے تحت 90 روز کے لیے گرفتار کرلیا جائے اور انھیں سینٹرل جیل پہنچادیا جائے لیکن عدالت کے حکم کی روشنی میں ملزمان کو رہا کیا جاچکا تھا۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جب ملزمان جیل میں تھے تو اسی وقت ایم پی او کا آرڈر جاری کرنا چاہیے تھا کیونکہ کیس سے بری ہونے کے بعد اب ملزمان ممکنہ طور پر کراچی سے ہی جاچکے ہیں تاہم ان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔
پروین رحمن کا قتل
تفصیلات کے مطابق 3 مارچ 2013 میں عبداللہ کالج کے قریب نامعلوم ملزمان نے کار پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں کار میں سوار اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی تھیں۔
واقعے کے اگلے ہی روز پولیس نے ایک مقابلے میں قاری بلال نامی ملزم کی ہلاکت کے ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ پروین رحمن کے قتل میں قاری بلال ملوث تھا ، بعدازاں ورثا کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں واقعے کی دوبارہ انکوائری کے لیے پٹیشن دائر کی گئی۔
سپریم کورٹ نے معاملے کی دوبارہ انکوائری کا حکم دیا، مئی 2014 میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی جس نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے ڈائریکٹرز ، اسٹاف اور دیگر افراد کو ملا کر مجموعی طور پر 26 افراد کے بیانات قلمبند کیے۔
اسی دوران 19 مارچ 2015 کو پولیس نے مانسہرہ سے احمد علی عرف پپو کشمیری کو گرفتار کیا جس نے دوران تفتیش رحیم سواتی اور دیگر کے بارے میں آگاہ کیا ، پولیس نے مختلف وقتوں میں رحیم سواتی، اس کا بیٹا عمران سواتی ، ایاز علی سواتی اور محمد امجد حسین نامی ملزمان کو گرفتار کیا ، ملزمان کو کیس میں سزا ہوئی عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں۔
ملزمان نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ، سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملزمان کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ، ملزمان کو شک کا فائدہ دیا گیا کیونکہ پراسیکیوشن ملزمان پر الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا جبکہ کسی بھی ملزم کے قبضے سے کوئی اسلحہ بھی برآمد نہیں کیا جاسکا ، رواں برس 21 نومبر کو عدالت نے فیصلہ جاری کیا اور حکم دیا گیا کہ اگر ملزمان کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انھیں رہا کردیا جائے۔