توانائی کا عالمی بحران

درآمدات بہت زیادہ برآمدات بہت کم ۔یہ ہے اصل بیماری جو ہماری معشیت کو گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے


Zamrad Naqvi December 05, 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

دنیا اس وقت توانائی کے تاریخی بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف دستیاب توانائی کے ذخائر محدود تو دوسری طرف ان کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ غریب تو کیا امیر ممالک بھی توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو افورڈ نہیں کر سکتے۔

دنیا بھر میں تمام ملازمت پیشہ افراد اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ ان کی محدود آمدنی کا بڑا حصہ بجلی بلوں کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔ برفانی طوفان امریکا کے کئی حصوں کو نیو یارک سمیت اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ابھی موسم سرما کی ابتداء ہے جب کہ طویل موسم سرما ابھی باقی ہے۔

ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے پاکستان میں وہ موسم سرما جس میں کڑاکے کی سردی پڑتی ہے کئی دہائیوں پہلے ماضی میں اکتوبر، نومبر سے شروع ہو جاتی تھی۔ اب دسمبر یا دسمبر کے آخر سے شروع ہوتی ہے اور اس کی شدت بھی بمشکل دو ہفتہ رہتی ہے۔

موسم بہار تو اب قصے کہانیوں میں ہی باقی رہ گیا ہے۔ مارچ سے ہی گرمی کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ پھر اگلے 6مہینے آگ برساتا ہوا سورج اور کمر توڑ بجلی بل۔ وہ بل جو ماضی میں گرمیوں میں موصول ہوتے تھے اب اتنے ہی بل سردیوں میں ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ یونٹ کم سے کم اس کے باوجود بل زیادہ سے زیادہ ابھی سردی نے شدت نہیں پکڑی کہ ایک انڈہ 25روپے یعنی پونے تین سو روپے درجن، یورپ میں توانائی بحران کس قدر شدید ہے۔

اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یوکرین کے مشہور زمانہ صدر نے اپنے شہریوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ توانائی کی بچت کے لیے اپنا ملک چھوڑ کر معتدل موسموں کے ملکوں میں چلے جائیں کیونکہ ان کی حکومت گھریلو استعمال اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے توانائی فراہم نہیں کر سکتی، یہ بھی کہا گیا ہے کہ واشنگ مشین اور دیگر الیکٹرونک مصنوعات کا کم سے کم استعمال کریں جس میں بجلی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وہ ذات شریف ہیں جنھوں نے روس کے خلاف امریکی سازش کا حصہ بن کر پوری دنیا کو توانائی اور فوڈ بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس وقت دنیا ان دونوں چیزوں کے حوالے سے جس آزمائش سے گزر رہی ہے اس نے غریبوں کے ہی نہیں امیروں کے بھی ہوش اڑا دیے ہیں۔ پٹرول اس سال کی کم ترین سطح 80ڈالر فی بیرل پر آگیا ہے لیکن پاکستان میں اس کی قیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، جب کہ اصولی طور پر اس میں 30روپے فی لیٹر کی کمی ہونی چاہیے۔

توانائی بحران کی وجہ سے یورپی ممالک نے اپنا انحصار کوئلے سے چلنے والے پلانٹس پر بڑھا دیا ہے، حالانکہ ماحولیاتی حوالے سے جو کانفرنس فرانس اور حال ہی میں مصر میں ہوئی اس میں تمام ترقی یافتہ ممالک نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ کاربن کا اخراج کم سے کم کر دیں گے کہ سب سے زیادہ کاربن کا اخراج کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے ہوتا ہے۔ وجہ وہی روس یوکرین جنگ۔ یعنی ہمارے کرہ ارض کی تباہی جو ابھی کچھ فاصلے پر تھی بہت جلد ہو جائے گی۔

کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کے ذریعے توانائی حاصل کرنا خود اپنے ہاتھوں خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں تھر کے مقام پر کوئلے کے اتنے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں کہ ان سے اگلے دو سو سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بجلی تو حاصل ہو جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اور ہماری آیندہ نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا۔

کوئلہ نسبتاً سستا پڑتا ہے بہ نسبت فرنس آئل، آر ایل این جی کے، ان کی قیمتوں میں ایک سال کے عرصے میں 300فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ جسکی وجہ سے حکومت کے لیے درآمدی ایندھن سے بجلی کی پیداوار جاری رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب کہ ملک ایک سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔

اندازہ لگائیں بحران کتنا سنگین ہے فرنس آئل کی قیمت ایک سال کے دوران 76ہزار فی میٹرک ٹن سے بڑھ کر ایک لاکھ 72ہزار روپے فی میٹرک ٹن پر پہنچ گئی ہے، جب کہ آر ایل این جی کی قیمت 4000روپے سے بڑھ کر 16000روپے ہو چکی ہے اور درآمدی کوئلے کی قیمت 20ہزار روپے فی ٹن سے بڑھ کر 65ہزار روپے فی ٹن تک پہنچ گئی ہے۔

اس طرح ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر جو صرف 6ہفتے کی درآمدات کے لیے رہ گئے ہیں۔ اس خوفناک بوجھ کو کسی صورت نہیں سہار سکتے۔ درآمدات بہت زیادہ برآمدات بہت کم ۔یہ ہے اصل بیماری جو ہماری معشیت کو گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب اور پنجاب اسمبلی کے حوالے سے فوری اہم تاریخیں 4-5اور 7-8 تا 9-10دسمبر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔