سعودی تحفہ
برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ و قابل اعتماد دوستانہ مراسم اور گرمجوش تعلقات سے
برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ و قابل اعتماد دوستانہ مراسم اور گرمجوش تعلقات سے کسی کو انکار نہیں۔ سرد و گرم ہر دو موسموں میں سعودی عرب نے قدم قدم پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ قدرتی آفات ہوں یا سیاسی معاملات، علاقائی مسائل ہوں یا بین الاقوامی تعلقات ہر دو مواقعوں پر سعودی حکمران پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والے سول و عسکری حکمرانوں سے سعودی بادشاہوں کے ہمیشہ خصوصی مراسم رہے ہیں اور بوقت ضرورت گاہے بہ گاہے وہ پاکستانی قیادت کے ساتھ پر خلوص تعاون اور دوستی کے باوقار رشتے کو پورے اعتماد و یقین کے ساتھ نبھاتے چلے آرہے ہیں۔ اس حوالے سے ملک کی موجودہ حکومت پر سعودی فرمانروا کی خصوصی کرم نوازیاں، نوازشیں اور مہربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ مئی 1998 جب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عالمی دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کیے تو امریکا و یورپ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں جس کے باعث ملک کی معاشی زندگی پر منفی اثرات پڑنے لگے تو پاکستان کو سعودی عرب نے تیل کی فراہمی میں اضافہ کردیا اس تعاون کے نتیجے میں سعودی بادشاہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کی محبتوں، قربتوں اور پر اعتماد تعلقات میں ''ریکارڈ اضافہ'' ہوا جس کا عملی مظاہرہ دو سال بعد اس وقت دیکھنے میں آیا جب 12 اکتوبر 1999 کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ آزمائش کے اس نازک موقعے پر یہ سعودی بادشاہ ہی تھے جنھوں نے جنرل پرویز مشرف پر دباؤ ڈال کر وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ان کے چنگل سے آزاد کرواکے اپنی محبتوں کے حصار میں لے لیا تھا۔ میاں برادران اہل خانہ کے ہمراہ 5 سال سے زائد عرصے تک جلاوطن اور سعودی بادشاہ کے ''مہمان خاص'' بن کر رہے اور اس قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی شاہی خاندان سے ذاتی تعلقات کو مزید مستحکم بنا لیا۔
میاں نواز شریف جب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو فرمانروائے عرب کی ان پر ''نوازشوں'' کا ایک اور عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب سعودی بادشاہ نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو مبلغ ڈیڑھ ارب ڈالر کا ''تحفہ'' عنایت کیا جسے حکومت نے بڑی خاموشی اور رازداری کے ساتھ اپنے پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ میں منتقل کردیا۔ سات پردوں میں چھپے سعودی تحفے کا راز ''راز'' ہی رہتا لیکن اچانک ہی آسمانوں کو چھوتا امریکی ڈالر سعودی ریالوں کی کشش کے باعث تیزی سے زمین کی طرف گرنے لگا اور محض ایک ہفتے کی قلیل مدت میں 107 روپے سے کم ہوکر 100 روپے سے بھی نیچے کی سطح پر آگیا۔ امریکی ڈالرز کی یکدم ایسی زوال پذیری نے اقتصادی و معاشی ماہرین، مبصرین، تجزیہ نگاروں اور ناقدین کو حیرتوں کے سمندر میں ڈبو دیا اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے میڈیا کے نمایندے جب بھی استفسار کرتے تو وہ ''راز'' کو بس ''راز'' ہی رہنے دیں کے مصداق بات کو گھما پھرا دیتے۔ لیکن 21 ویں صدی کے کھوجی اور تیز رفتار میڈیا نے جو سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کا ماہر بنتا جا رہا ہے، بالآخر ڈیڑھ ارب ڈالر کے ''سعودی تحفے'' کے راز پر پڑا پردہ اٹھا دیا جس کے پیچھے سعودی عرب کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا پھر ''مہم جو'' میڈیا نے حقیقت جاننے کے لیے جو بھاگ دوڑ شروع کی تو اب کئی کہانیاں اور افسانے سامنے آرہے ہیں۔ حکمراں اور ناقدین ''سعودی تحفے'' کے بارے میں متضاد موقف رکھتے ہیں حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ملک کی ڈولتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے اپنی روایتی دوستی نبھاتے ہوئے بغیر کسی لالچ اور بدلے کے 1.5 ارب ڈالر کا ''تحفہ'' دیا ہے اور ابھی مزید بھی دیں گے اسی طرح بحرین و متحدہ عرب امارات سے بھی ''امدادی رقم'' جلد پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ میں آئے گی جس سے ملکی معیشت بہتر ہوگی۔ ترقیاتی کام ہوں گے اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا۔
یہ وضاحتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ سعودی ڈالروں کے بدلے میں پاکستان اپنی کسی بھی قسم کی افرادی خدمات یا چیزیں سعودی عرب کو مہیا نہیں کرے گا جیساکہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اٹھائے جانے والے سوالات، شکوک و شبہات، قیاس آرائیوں اور دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مالی تعاون کے بدلے میں سعودی عرب، بحرین اور عرب امارات سمیت کسی بھی عرب ملک نے پاکستان سے فوج نہیں لی اور نہ ہی ہم اپنی فوج بیرون ملک بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم نے مزید یہ کہا کہ سعودی و بحرین کے مہمان دوستوں کے بعد مزید دوست ملکوں کے سربراہان پاکستان کا دورہ کریں گے۔ گویا ابھی مزید ''ڈالروں'' کی بارش ہونے کی امید ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی قومی اسمبلی کے فلور پر کہا ہے کہ حکومت کو ڈیڑھ ارب ڈالر اسلامی ملک کی طرف سے ''تحفے'' میں ملے ہیں اس معاملے پر شک اور تنقید نہ کی جائے۔ موصوف نے یہ بھی وضاحت پیش کی کہ فوج کو ملکی مفاد کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا اور ڈالر کی قیمتیں کم ہونے کے اثرات اپریل سے ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔ تاہم اسحاق ڈار کی وضاحتوں پر اپوزیشن رہنماؤں کو اعتبار نہیں سو انھوں نے جواباً متعدد سوالات اٹھائے۔ پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس مالی امداد کے بدلے جو خدمات انجام دینی ہیں تو وزیر اعظم یا وزیر دفاع اس کی وضاحت کریں۔ متحدہ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کوئی بھی ملک بغیر شرائط کے ڈیڑھ ارب ڈالر کیوں دے رہا ہے؟ اور پاکستان میں دوسرے ملک کی پراکسی وار لڑی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے رقم دی اچھی بات ہے لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیوں اور کس وجہ سے دی سعودی ولی عہد پاکستان تشریف لائے پھر اعلامیہ جاری ہوا جس کے مطابق ہم شام کے خلاف سعودی عرب کی پارٹی دکھائی دیتے ہیں۔
اعلیٰ حکومتی سطح پر وضاحتوں کے باوجود ناقدین اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین و تجزیہ نگار سعودی تحفے کے حوالے سے جن شکوک، شبہات و تحفظات و خدشات کا اظہار کر رہے ہیں ان میں موجود وزن کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ سعودی عرب پاکستان کا مخلص ترین دوست ہے لیکن بین الاقوامی تعلقات کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنھیں ہر ملک کو نبھانا پڑتا ہے۔ ''تحفوں'' کے بدلے میں ''تحفے'' دینا پڑتے ہیں جیساکہ سعودی ولی عہد کے حالیہ دورہ پاکستان پر جاری مشترکہ اعلامیے میں شام میں عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا گویا سعودی عرب نے ڈالر تحفے کا پہلا ''ہدف'' حاصل کرلیا اب آپ لاکھ وضاحتیں کرتے رہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق اس قسم کے تحفے''مفت'' نہیں ملتے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان ''بدلے'' میں سعودی عرب اور بحرین کو ہتھیار دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جیساکہ مشیر خارجہ نے فرمایا کہ اس بات کی یقین دہانی لی جائے گی کہ ان ہتھیاروں کا صرف سعودی عرب ہی میں استعمال ہوگا باہر کسی دوسرے ملک میں نہیں۔ لگتا ہے فیصلہ سازوں نے افغانستان سے سبق نہیں لیا جس کے ''کلاشنکوف کلچر'' کے تحفے نے وطن عزیز میں آگ لگائی۔