میڈیا میں آنے کے سنہرے گر

آج کا کالم ہم ان تمام نو آموز صحافیوں کے نام کرتے ہیں جوکہ صحافت کی دنیا کا چمک دار ستارہ بننا چاہتے ہیں


فاطمہ نقوی April 01, 2014
[email protected]

سب سے پہلے تو تمام قارئین کا بہت شکریہ کہ انھوں نے ہمارا پچھلا کالم پڑھا اور ڈھیر ساری ای میل کرکے ہم سے اظہار ہمدردی کیا۔ آج کا کالم ہم ان تمام نو آموز صحافیوں کے نام کرتے ہیں جوکہ صحافت کی دنیا کا چمک دار ستارہ بننا چاہتے ہیں مگر وہ طریقے نہیں معلوم جن کی بدولت وہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ ہم تو خود ان نوآموز لوگوں میں شامل ہیں، اس لیے بڑی تگ و دو کے بعد کچھ مختلف فیلڈ کے مشہور لوگوں سے معلومات حاصل کیں اور خلق خدا کے بھلے کے لیے اپنی معلومات کو عام کررہے ہیں۔

ایک مشہور اینکر پرسن نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے یہ مقام یوں ہی حاصل نہیں کرلیا بلکہ اس کے لیے بڑے داؤ پیچ سیکھے ہیں جب جاکر کہیں یہ مقام ملا ہے۔ انھوں نے کہاکہ ڈگریاں وغیرہ اتنی ضروری نہیں ہوتیں، ڈگری تو ہما شما بھی حاصل کرلیتے ہیں، ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کرنے والے کون سا تیر مار رہے ہیں۔ ہم نے تو سو فیصد ان کی بات سے اتفاق کیا اس لیے کہ جب ہم ماسٹر کر رہے تھے تو ہماری کلاس میں 42 اسٹوڈنٹ تھے، جن میں سے صرف 2 طلبا کے علاوہ کوئی میڈیا میں جاب حاصل نہیں کرسکا بلکہ حد تو یہ ہے کہ ایک کلاس فیلو تو کامیابی سے پولٹری فارم چلارہے ہیں۔ خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیںگی، ذکر تھا اینکر پرسن کی معلومات کا ان کا کہنا ہے کہ اچھا اینکر پرسن بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے چہرے پر بارہ تو لازمی بج رہے ہوں۔ جیسے کہ استاد کو دیکھ کر نالائق شاگرد گھبرانے لگتے ہیں، اسی طرح اینکر پرسن کی دھاک مہمانوں پر اس طرح بیٹھ جائے کہ مہمان دل ہی دل میں لاحول ولا بھی نہ پڑھ سکے، اس کے ساتھ ساتھ کوئی ریسرچر بھی دس بارہ ہزار میں ہائر کرلیں جو آپ کو دنیا بھر کی معلومات سرچ کرکے دیتا رہے اس کے علاوہ خیال رکھیں کہ جتنے بھی مہمانوں کو مدعو کریں سمجھ لیں کہ وہ آپ کے آگے کچھ نہیں ہیں۔

سب مجھ سقراط کے شاگرد سمجھتے ہیں۔پروگرام کے شروع ہونے میں اتنا شور مچا دیں کہ مہمان اپنا موقف ہی بیان کرنا بھول جائیں۔ اس کے علاوہ بات پکڑنے کا ہنر بھی بہت ضروری ہے اگر کسی کو اس ہنر میں کمال حاصل نہیں ہے تو وہ اسٹار پلس کی ساسوں سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں، خیال رکھیں کہ اگر آنے والے مہمان معقول گفتگو کررہے ہیں، ایک دوسرے کا احترام کررہے ہیں تو اسی وقت کسی بھی مہمان کی معمولی بات کو بی جمالو کی طرح بھڑکا کر بات کا رخ دوسرے مہمان کی طرف موڑ دیں پھر دیکھیں کہ کس طرح مہمانوں میں رولا پڑے گا، وہ پروگرام کو دو آتشہ کردے گا دوستو! کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مہمان اینکر پرسن پر غالب آنے لگتا ہے، اس صورت حال میں ان کو زیادہ جنوں میں بک بک کا موقع نہ دیں بلکہ بے موقع بریک پر چلے جائیں۔ یاد رکھیں بریک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے آپ مہمان کو چاروں خانے چت کرسکتے ہیں۔ آف دی ریکارڈ بھلے مہمان کچھ کہتے رہیں مگر آن دی ریکارڈ آپ کو کوئی پچھاڑ نہیں سکتا، بونوں میں آپ گلیور ہوں گے۔ اس کے علاوہ مہمانوں کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال بھی رکھا جائے کہ ایک آدھ مہمان ایسا فری اسٹائل ہو جو پروگرام میں جان ڈال دے۔ جب تک پروگرام میں پاپ سنگنگ جیسی چیخ و پکار نہ ہو پروگرام کی مقبولیت مشکوک رہتی ہے۔ تو قارئین یہ تو تھیں اینکر پرسن کے تجربات کا نچوڑ، کچھ اہم معلومات۔ اب ہم ایک رپورٹر کے تجربات بھی آپ کو بتاتے ہیں۔ بڑی جان ماری کے بعد یہ قیمتی خزانہ ہمارے ہاتھ آیا ہے، رپورٹر کا کام کسی بھی ہونے والے واقعے کو خبر بنانا ہوتا ہے اور رپورٹنگ کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی معمولی واقعہ ہو اسے بھی خبر بنا دیا جائے، No news is good news تھیوری پر چلے تو پاٹیا گول ہوسکتا ہے، جاب کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ وقوع پذیر ہونے والی خبر سب سے پہلے آپ کے ادارے کے توسط سے لوگوں تک پہنچے ،خبر آپ تک نہ پہنچے تو آپ خود خبر تک پہنچ جائیے۔ اپنی رپورٹ میں بار بار یہی تذکرہ کریں چاہے آپ وہاں سب سے آخر میں پہنچے ہوں مگر ظاہر یہی کرنا ہے کہ اس خبر کو دنیا سے روشناس جس ہستی نے کروایا ہے وہ آپ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے۔ خبر بیان کرتے وقت جتنی سنسنی پھیلاسکتے ہیں پھیلائیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ بلکہ رینکنگ بڑھے گی۔ رپورٹ کرتے وقت جان ڈالنے کے لیے متاثرہ یا زخمی شخص کے رشتے داروں سے معقول، نامعقول سوالات جاری رکھیں اور اگر کوئی بے چارہ کسی حادثے یا ٹارگٹ کلنگ میں ماراگیا ہے تو قبر تک پہنچاکر دم لیں۔ ڈی ایس این جی قبرستان پہنچی تو بلے بلے! السلام و علیکم یا اہل القبور ۔ہر موقعے کی منظر کشی کریں، کوشش کریں کہ مٹی ڈالتے وقت بھی لوگوں کو دکھاکر قبرستان کا منظر بھی واضح دکھا دیں، ''خبر'' پر مٹی نہ ڈالیں تاکہ لوگوں کو عبرت بھی حاصل ہو کہ آج اس کی کل ہماری باری ہے۔ یقین جانیے عوام کی بڑی تعداد ٹی وی کے سامنے سے نہیں اٹھے گی، اس لیے اخلاقیات یا خیال خاطر احباب وغیرہ کا دھیان ذرا کم ہی رکھیں ورنہ اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔

ایک اہم بات یہ کہ رپورٹنگ کرتے وقت اگر کوئی واقعہ نہیں ملا (ویسے اس کا امکان تو کم ہے) تو خود ہی کچھ واقعاتی منظر نامہ سجا لیں، یہ آپ کی اضافی تخلیقی صلاحیت سمجھی جائے گی۔ ایک اور اہم شعبہ ہے نیوز کاسٹر کا، اگر آپ اچھے نیوز کاسٹر بننا چاہتے ہیں تو اسکرین پر آنے کے لیے ایڑی تا چوٹی کا سارا available زور لگا دیں، جتنا بے تکا ہیئر اسٹائل ہوگا اتنی ہی مقبولیت حاصل ہوگی، آڑے ترچھے ہیئر اسٹائل، منہ ٹیڑھا کرکے پڑھنا یہ سب فیشن ہے،اردو پر مشق ستم جاری رکھنا، اس لیے اگر کبھی دیر ہونے یا پھر سونے سے سیدھا اٹھ کر اسٹوڈیو میں آکر خبریں پڑھنا پڑیں تو اعتراض مت کریں، کیوںکہ دیکھ لیجیے گا اگلے دن آپ کا یہ انداز اتنا مقبول ہوچکا ہوگا کہ ہر چینل کا نیوز کاسٹر آپ کی نقل کرتا نظر آئے گا۔ نیوز پڑھنے کے ساتھ جائے وقوعہ پر موجود اپنے رپورٹر سے رابطہ بھی رکھیں اور سوالات بھی کریں، موقع بے موقع کے چکر میں مت پڑیں سنجیدگی کے ساتھ جتنے عجیب و غریب اور مزاحیہ سوالات آپ کرسکتے ہیں کرلیں۔ رپورٹر کو اپنے سوالات سے اتنا زچ کردیں کہ وہ کہہ اٹھے ''جی آپ کی آواز نہیں آرہی'' اس کے علاوہ کچھ فوری مسالے دار سوالات پروڈیوسر بھی آپ کے کان میں پھونک دے گا وہ بھی ضرور کریں تاکہ پروڈیوسر کی نظر میں بھی آپ کا مقام بلند ہو۔ ایک بار مزا آگیا، نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی، اس پر ایک چینل کے نیوز کے دوران حافظ صاحب سے ایسے سوالات کیے گئے کہ ہم سب کا دماغ چکرا گیا ، آخر انھوں نے جان چھڑائی کہ یہ سوال آپ مجھ سے پوچھنے کے بجائے مودی سے کریں۔قارئین کرام ہم نے تو اپنا کام کردیا کہ آپ کو الیکٹرانک صحافت میں نام پیدا کرنے کے لیے بہت قیمتی اور مفت خفیہ معلومات سے آگاہ کردیا ہے۔ آپ کا بھی فرض ہے کہ اس پر عمل کریں۔اس سے آپ کی پیشہ ورانہ عاقبت سنور جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں