ملک کی بقا کا انحصار صرف سیاسی استحکام

پاکستان کی قیادت سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہے


Editorial December 07, 2022
پاکستان کی قیادت سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہے (فوٹو: فائل)

وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی کا راز پن بجلی میں ہے ، اب ہم مہنگی بجلی کے متحمل نہیں ہوسکتے، یوکرین روس جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ، تعمیر وترقی عمل سے ہوتی ہے نعروں اور دھرنوں سے نہیں ، جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا ترقی نہیں ہوگی۔

منگلا ڈیم پن بجلی کے یونٹ نمبر پانچ اور چھ کی تجدید وبحالی کے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس منصوبے کا افتتاح امریکا اور پاکستان کے درمیان تعاون کی بہترین مثال ہے۔ہوا، کوئلہ اور پاکستان کے اپنے ذخائر ہم نے استعمال نہیں کیے اور دن رات تیل خریداجاتار ہا جس کو کارٹلز ڈکٹیٹ کرتے رہے مگر اب ان کو شپ اپ کال دینی ہوگی ۔

ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چراسکتے کہ ہم نے ملک میں نئے ڈیمز نہ بنا کر ایک سنگین غلطی کی ہے ، جس کا خمیازہ ہم توانائی کے بحران کی صورت میں بھگت رہے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے جغرافیائی اعتبار سے ہمیں بہترین زرخیز ملک اور خطہ عطا کیا ہے، جو بے بہا نعمتوں سے مالا مال ہے۔ سونا، چاندی، تانبے کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتوں کے خزانے اس میں مدفون ہیں۔ نایاب قیمتی پتھر اور ہیرے جواہرات کی فراوانی ہے۔

تیل، گیس اور کوئلہ کی کمی نہیں۔ دریا، نہریں اور آب پاشی کا نظام موجود ہے، جس کی بناپر زرخیز زمین سونا اُگل رہی ہے۔ کون سا پھل اور کونسی زرعی جنس ہے جو پاکستان میں نہیں اُگتی۔ پاکستانی قوم محنت کش اور جفاکش قوم ہے۔ پاکستانی قوم کا شمار دنیا کی ذہین ترین قوموں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ملک میں اقتصادی اور معاشی عدمِ استحکام نے ایک بحران کی شکل اختیار کرلی ہے، جس سے عوام میں فکری انتشار کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔

حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کو اس صورت حال کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیسے اس عظیم مملکت کی معیشت تباہ ہوئی، کیسے اس ملک کو قرضوں میں جکڑدیا گیا اور ان قرضوں کی رقم کہاں خرچ ہوئی؟ ملکی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس قوم نے کشکول کیوں ہاتھ میں پکڑا؟

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب کے دوران قومی کوتاہی اور غلطی کی واشگاف الفاظ میں نشاندہی کرکے گویا قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے، سیاسی اور انتظامی امور میںکمال مہارت شہبازشریف کی شخصیت کا نمایاں وصف ہے، ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے ان کی عملی کاوشیں یقیناً بہت جلد رنگ لائیں گی ۔

تقریب سے ان کے خطاب کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سیاسی اور معاشی استحکام بے حد ضروی ہے، لیکن بدقسمتی سے ملکی سیاسی صورتحال عدم استحکام کا شکار ہے، اسی دوران تحریک انصاف کے چیئرمین نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیاں مقررہ مدت سے پہلے توڑنے کا اعلا ن کردیا ہے ۔

اس سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ چکا ہے۔گو تاحال اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا لیکن سیاسی محاذآرائی میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ ادھرسیاسی عدم استحکام ملکی معیشت کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔

ملکی معیشت مشکلات کا شکار ہے، ملک کے تمام طبقات یعنی نوکری پیشہ افراد، زمیندار، کسان،صنعتکار،تاجر اور دیہاڑی دار مزدور سخت پریشان ہیں، افسوس ناک امر یہ ہے کہ نچلے طبقے کی اس زبوں حالی کی ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ذرا بھی فکر نہیں۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام، توانائی بحران اورمجموعی معاشی بدحالی کی وجہ سے اب کم ازکم دس کروڑشہری پیٹ بھرکرکھانا نہیں کھاسکتے، لوگ صحت اورتعلیم پرکمپرومائزکرنے پرمجبورہوچکے ہیں اوراپنے بچوں کواسکولوں سے نکال کرکام پرلگا رہے ہیں۔

ملک میں نفرت کی سیاست اورقومیت کوہوا دی جا رہی ہے جس سے سماج تباہ ہورہا ہے اوراقتصادی حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں اور بجلی مسلسل مہنگی کی جا رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے۔

ملک کا بڑھتا تجارتی خسارہ اور کئی اسباب کی بناء پر بڑھتے ہوئے قرضے معیشت کی نمو کی قدرتی صلاحیت کو کمزور کر رہے ہیں۔ لوگوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اب مہنگی بجلی کے بل ادا کر سکیں۔

مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا عفریت، انتشار اور بدامنی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے، جب کہ حکومت اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)و دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے ریلیف پیکیج مانگ رہی ہے اور اس کے لیے اپنے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی ہر شرط قبول کونے کے لیے تیار ہے۔

معاشی بحران سے قطع نظر ہمارے سیاسی رہنما ملک پر سیاسی جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں۔ آج پاکستان کی معیشت سیاسی بدامنی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔

اپنے وسیع معاشی وسائل کے باوجود ملک کو سیاسی عدم استحکام کے خطرے کی وجہ سے اب بھی شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ غیر مستحکم سیاسی نظام ایک خطرہ ہے جو کسی ملک میں نظم ونسق اور قانون کے نفاذ کو روکتا ہے۔

یہ بے قاعدہ سیاسی تبادلوں کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی پر عمل درآمد اور کمزور ادارہ جاتی ڈھانچہ ٹوٹ جاتا ہے، سماجی رویے کی نافرمانی جو معاشرے کے فیصلہ سازی کے پیرامیٹرز کو متاثر کرتی ہے یا تبدیل کرتی ہے۔نتیجتاً اس سے معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور اس طرح ملک میں معاشی ترقی میں کمی آتی ہے۔

اس لیے ایک خوشحال اور ترقی پسند معیشت کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ورنہ ملک معاشی بحران کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کم اقتصادی ترقی کا سامنا کرنے والے ممالک سیاسی بدامنی کی وجہ سے حکومتی تبادلوں کے بے قاعدہ بہاؤ کا شکار ہیں۔

تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ معاشی بحالی صرف سیاسی اتفاق رائے سے حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن سیاسی قیادت تاحال باہمی رسی کشی کا شکار ہے۔

پاکستان کو ممکنہ مالیاتی دیوالیہ دور سے باہر نکالنے کے لیے قومی اتفاق رائے سے کم کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ملک میں تلخ اور بعض اوقات پرتشدد پولرائزیشن کی وجہ سے اس کے امکانات کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے دھڑے اس وقت ملکی معاشی ابتری کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہوئے اپنے آپ کو پاکستانی عوام کے سامنے مسیحا کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن حقیقت بہر حال یہی ہے کہ ملک کو اس وقت جن حالات اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔

ان کا تعلق گزشتہ ساٹھ ستر برس کے دوران اختیار کی گئی پالیسیوں سے ہے، جو اب ملکی ضرورتیں پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی موجودہ سیاسی فضا میں یہ جاننے کی کوئی ٹھوس کوشش بھی نہیں کی جا سکی کہ گزشتہ چھے سات دہائیوں کے دوران ملکی معیشت کو کن بیساکھیوں کے سہارے چلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔بادی النظر میں پاکستان کو جن مسائل اور صورت حال کا سامنا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ ریاستی پالیسیاں زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر نہیں بنائی گئیں۔ سرد جنگ کے دور میں عالمی صف کچھ اور تھی اور اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔

پوری دنیا سمیت جنوبی ایشیا میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ پاکستان کی قیادت سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہے، ان کی اس لڑائی کی وجہ سے عالمی اسٹرٹیجک منصوبوں میں پاکستان کا کوئی متعین کردار نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے معاشی مسائل اور خارجہ مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔

موجودہ حکومت نے خارجہ اور معاشی تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے، ان میں آئی ایم ایف کے ذریعے وسائل کی فراہمی اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں تک رسائی کے معاملات سر فہرست ہیں۔

ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ روایتی سیاست سے ہٹ کر عوام کے مسائل پر توجہ دیں،ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے،سیاستدانوں کو اپنی ترجیحات بدل کر عوامی مسائل پر فوکس کرنا ہو گا۔سیاستدانوں کو اپنی ذات سے ہٹ کر ملک کی بات کرنی چاہیے، کیونکہ کسی بھی ملک کی بقاکا انحصار صرف سیاسی استحکام اور مضبوط معیشت پر ہوتا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں، بجلی، گیس کے نرخوں، شرح سود اور مہنگائی کے تناظر میں کارپوریٹ سیکٹر، تاجروں اور کاروباری برادری کو درپیش بڑھتے ہوئے معاشی مسائل ، یعنی موجودہ تشویش ناک صورتحال تمام سیاسی جماعتوں کی فوری توجہ کی متقاضی ہے کہ وہ کم از کم بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اس کا ایک قابل عمل حل تلاش کریں کہ قومی معیشت کو کس طرح موجودہ بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں جب بھی قومی مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو اپوزیشن ہمیشہ حکمران جماعت کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی ملک کو سیاسی عدم استحکام اور سنگین معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اسی اعلیٰ ترین جذبے، ذمے دارانہ سوچ اور اپنے رویے میں لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اس وقت پورا پاکستان سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ اس نازک موڑ پر اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور قومی مفاد کی خاطر اپنے چھوٹے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی جذبے کے ساتھ عوام کی توقعات پر پورا اتریں اور ملک و قوم کو اس نازک صورتحال سے باہر نکالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں