پیپلز پارٹی کے پچپن سال

پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم ہے۔ اس ترمیم کے تحت صوبے حقیقی وفاقیت کے قریب ہیں


Dr Tauseef Ahmed Khan December 07, 2022
[email protected]

ماضی کی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو بنے پچیس سال ہوگئے۔ پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نشر پارک میں ایک جلسہ میں دھواں دار انداز میں اپنی تقریر میں زیادہ زور عمران خان پر تنقید اور ریٹائر جنرل باجوہ کی 1971 کی شکست کو سیاسی شکست قرار دینے کا جواب دینے میں صرف کیا۔

ا س جلسے کی خوب پبلسٹی سندھ کی صوبائی حکومت سے محبت کرنے والے اکابرین نے کی۔شہر کی اہم شاہراہوں پر بڑے بڑے بینر آویزاں کیے تھے۔ اس کے باوجود حاضرین کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی نے نشتر پارک میں ایک جلسہ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد کیا تھا۔ بلاول بھٹو کی نانی بیگم نصرت بھٹو ا س جلسہ کی اہم ترین مقرر تھیں۔

جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے جابرانہ اقدامات کے باوجود اس دن نشتر پارک میں عوام کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ اس جلسہ میں عوام کی شرکت اور بیگم نصرت بھٹو کی ولولہ انگیز تقریر کے بعد فوجی حکومت انتخابات ملتوی کرنے کے اقدامات پر سوچنے پر مجبور ہوئی تھی۔

پیپلز پارٹی 1967میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر واقع لاہور میں قائم ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو پارٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے اس پہلے جلسہ میں اکثریت کا تعلق درمیانہ اور نچلے متوسط طبقہ سے تھا۔

اس جلسہ کے شرکاء ڈاکٹر مبشر حسن، کسان رہنما شیخ رشید، اسلم گورداس پوری، حنیف رامے، معراج محمد خان، خورشید حسن میر، مختار رانا وغیرہ سوشل ازم کو نجات کا راستہ جانتے تھے۔ جاگیرداروں میں غلام مصطفی کھر، ممتاز بھٹو اور غلام مصطفی جتوئی اجلاس میں شریک تھے۔

پیپلز پارٹی نے طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، سوشل ازم ہماری معیشت ہے اور اسلام ہمارا مذہب ہے کے نعروں سے سیاست کا آغاز کیا تھا، بعد ازاں حنیف رامے کی وضح کردہ اسلامی سوشل ازم کی اصطلاح کو اپنے نعرہ کا حصہ بنایا تھا۔

پنجاب اور سندھ میں کمیونسٹ پارٹی، کسان اور مزدور تنظیمیں گزشتہ صدی کی 40ء کی دہائی سے قائم ہونا شروع ہوگئی تھی۔ ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد سے ملک میں کمیونسٹ پارٹی نے طلبہ، مزدور اور کسان تنظیموں کو منظم کرنا شروع کیا تھا۔

50ء کی دہائی کے آخری برسوں میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعد نیشنل عوامی پارٹی وجود میں آئی۔ نیشنل عوامی پارٹی میں بلوچ اور پختون قوم پرستوں کے ساتھ مختلف کمیونسٹ گروپ، کسان اور مزدور تنظیموں کے نمایندے شامل تھے۔

اگرچہ 1965 میں نیشنل عوامی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی تھی مگر نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ کے کارکن پنجاب میں مزدور، کسان دانشوروں اور صحافیوں کی تنظیموں میں متحرک تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی نے 1970 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سب سے بڑی کسان کانفرنس منعقد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اعلان تاشقند کی مخالفت پر ایوب خان سے علیحدہ ہوئے۔

پنجاب اور کراچی کے لوگوں میں بھارت مخالف جذبات بہت گہرے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی انداز اختیار کیا۔ بھارت مخالف جذبات اور استحصال سے پاک معاشرہ کے نعروں کے ذریعہ اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دی۔ مولانا بھاشانی اور ذوالفقار علی بھٹو نے سابق صدر ایوب خان کی گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔

کمیونسٹ پارٹی چین نواز گروپ نے پیپلز پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا، یوں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے لگی۔ سندھ میں سندھی متوسط طبقہ اور نچلے متوسط طبقہ نے پیپلز پارٹی کو اپنایا۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ سندھ کے جاگیردار پیپلز پارٹی کی حصہ بن گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عوامی کردار کے ذریعہ عوام کو ایک نیا سیاسی شعور دیا، یوں پیپلز پارٹی 1970 کے انتخابات میں سندھ اور پنجاب سے اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو کبھی تسلیم نہیں کیا، یوں جنرل یحییٰ خان نے ملک کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار دینے کی مخالفت کی۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد بنیادی اصلاحات کیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی اور زرعی اصلاحات اور مزدور کے حقوق کی پالیسی نے عوام کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا۔ ان کی خارجہ پالیسی سے ایشیائی اور افریقی ممالک سے تعلقات استوار ہوئے مگر بلوچستان میں آپریشن، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور بنیادی شہری آزادیوں پر قدغنیں عائد کرنے پر خود بھٹو حکومت کمزور ہوئی اور اسٹبلشمنٹ کو مضبوط ہونے کا موقع میسر آیا۔

بھٹو صاحب کی شخصیت اور پالیسیاں تھیں کہ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے خلاف تاریخی مزاحمت ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخ کو اہمیت دی، ان کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی تاریخی مزاحمت نے اسٹبلشمنٹ کو 1973کا آئین بحال کرنے پر مجبور کیا۔

بے نظیر بھٹو کے دور میں پارٹی کی کمپوزیشن میں تبدیلی آتے ہی ان متوسط طبقہ کے لوگوں کی نمایندگی کم ہوتی چلی گئی۔ بے نظیر بھٹو کی جرات اور بہادری نے پیپلز پارٹی کو ایک نئی قوت عطا کی، بیگم نصرت بھٹو اوربے نظیر بھٹو جب تک زندہ رہیں پیپلز پارٹی کا عوامی کردار برقرار ہا۔

بے نظیر بھٹو نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا اور 2005 میں میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر اتفاق کرنے اور اسٹبلشمنٹ کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی مگر پرویز مشرف نے قومی مصالحتی آرڈر (N.R.O) کرکے اپنی سیاسی زندگی کا بڑا حصہ سیاہ کردیا مگر بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پیپلز پارٹی کو نئی قوت دی مگر ان کے شوہر آصف زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی اپنے اساسی کردار سے دور ہوگئی۔

آصف زرداری کے نامزد کردہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پیپلز پارٹی کی بنیادی پالیسیوں کو غلط قرا ردیا۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال وفاق میں حکومت کی اور وہ پچھلے 14 سال سے سندھ میں برسر اقتدار ہے۔

پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم ہے۔ اس ترمیم کے تحت صوبے حقیقی وفاقیت کے قریب ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے دور میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے بہترین قانون سازی ہوئی مگر اس دور کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میںسے بیشتر قوانین پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔

پیپلز پارٹی کے بنیادی فیصلے زرداری کرتے رہے ہیں۔ سینٹرل ورکنگ کمیٹی، رہنماؤں اور کارکنوں کی حمایت کم ہوتی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک وقت میں ذوالفقار مرزا اور بابر اعوان جیسے لوگ اہمیت اختیار کرگئے جو رجعت پسند تھے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں کرپشن کے الزامات نے ایک بدترین طرز حکومت کا ماڈل بنا دیا۔

اس پالیسی کے سب سے زیادہ منفی اثرات سندھ پر برآمد ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے چالاکی سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو بلیک میل کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان پنجاب میں ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں کی بناء پر اس کے بنیادی ستون طلبہ، مزدور، کسان تنظیمیں، اقلیتیں اور لبرل شہری اس سے دور ہوئے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت نے جوڑ توڑ کی سیاست کو اپنالیا اور Electibles کو اہمیت دی جانے لگی۔ پیپلز پارٹی نے عوام کے بنیادی مسائل پر جدوجہد کو ترک کردیا، یوں عوام اور پیپلز پارٹی میں فاصلے بڑھتے چلے گئے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت نچلی سطح کے اختیار کے بلدیاتی اداروں کے قیام اور بلدیاتی انتخابات کی اسی طرح مخالفت کرتی ہے جس طرح جنرل ضیاء الحق 1973 کے تحت عام انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے شہر پسماندہ رہ گئے ہیں۔ لوگ یہ موازنہ کرنے لگے ہیں کہ پنجاب کے شہر ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کی اس اہم تقریر میں عمران خان کے بیانیہ کے تدارک کے لیے دلائل تو نظر آتے ہیں مگر غربت کے مارے عوام کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں کچھ نظر نہیں آتا۔ پیپلز پارٹی میں اب بھی سیکولر سوچ نظر آتی ہے۔

سابق سینیٹر فرحت اﷲ بابر جیسے انسانی حقوق کے سرگرداں کارکن اور رضا ربانی جیسے قانون کی بالادستی کی جدوجہد کے امین رہنما موجود ہیں مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ ان جیسے رہنما اب پارٹی کی پچھلی صفوں میں چلے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے عوام کو شعور دیا۔

اس کی قیادت نے جانوں کی قربانی دی، اس کی بقاء ایک جدید ترین سیاسی جماعت میں مضمر ہے جس کے پس پشت طلبہ، خواتین، مزدور، کسان، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں ہوں۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن متوسط طبقہ کی جماعتیں ہیں، پیپلز پارٹی مظلوم طبقات کی اب بھی قیادت کرسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔