ایک نئے پاکستان کی بنیاد
قوم بے چینی سے اپنے رہنماؤں اور محافظوں کی جانب دیکھ رہی ہے
میری عمر کے لوگوں نے مارشل لاء کے زمانے میں ہوش سنبھالا، مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کی حکمرانی کا دور تھا۔ مارشل لاء کے زمانہ طفلی میں کھلنے والی یہ آنکھ بار بار کھلتی اور بند ہوتی رہی ہے ، مارشل لاء کی نگرانی میں 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سیاست سے متعارف ہوئے توسیاست دانوں کے جوہر ہم پر آشکار ہوئے ۔
دو جماعتی سیاست آپس میں برسر پیکار رہی اور کبھی ہم کبھی تم والا معاملہ ہوتا رہا اور اسی کشمکش میں پرویز مشرف آدھمکے، قطع نظر اس کے کہ فوج کی حکمرانی ہونی چاہیے یا نہیں لیکن جب تک پرویز مشرف سیاست دانوں سے دور رہے بہت اچھی حکمرانی کرتے رہے لیکن جیسے ہی سیاست دانوں کا قرب حاصل ہوا، سیاست کا وہی پرانا زمانہ لوٹ آیااور چارو ناچار فوجی حکمران کو بھی اس میں گھسیٹ لیا گیا۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں افواج پاکستان کا ایک مضبوط اور کلیدی کردار ہمیشہ رہا ہے اور آیندہ بھی رہے گا کیونکہ پاکستان کا دشمن ہمسائے نے ہمارے ساتھ ہی رہنا ہے اور یہ ہمسائیگی بدلی نہیں جا سکتی ہے اور اس ہمسائے کا واحد علاج پاک فوج ہے ۔
پاکستانی عوام اپنی افواج پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں لہٰذا جب کبھی بات افواج پاکستان کی ہو اور خاص طور پر اس کے سپہ سالار کی تقرری کا وقت ہو تو پاکستانی اس معاملے میں بہت حساس ہو جاتے ہیں۔
فوج کے موجودہ سپہ سالار کی تقرری سے قبل بھی ملک بھر میں افواہوں کا ایک طوفان تھا جو تقرری کے اعلان کے ساتھ ہی تھم گیا گو اپنے مخصوص سیاسی مفادات رکھنے والوں نے اس تقرری کو متنارعہ بنانے کی بھر پورکوشش کی، وزیراعظم نے سینئر ترین جرنیل کی تقرری کا حکم نامہ جاری کیا ہے جو نہایت خوش آیند ہے اور خدا کرے کہ یہ ایک مستقل روایت بن جائے ۔
افواج پاکستان کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل سید عاصم منیر سیدھے کنٹرول لائن جا پہنچے اور فرنٹ لائن محاذ پر جوانوں سے کیا خوب مخاطب ہوئے اور ان کے جذبہ جہاد کو مہمیز کر دیا۔
انھوں نے حال ہی میں بھارتی وزیر دفاع کی جانب سے گلگت بلتستان اور اور آزاد جموں کشمیر کے متعلق دیے گئے متنارع بیانات پر واضح اور دو ٹوک موقف کا اظہار کرتے ہوئے دشمن بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ کسی خوش فہمی میں ہر گز نہ رہے اور اگر ہم پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی توہم یہ محاذ جنگ بھارت کے اندر لے جائیں گے اور انھیں ان کے گھر میں گھس کر ماریں گے۔
پاکستانی افواج نہ صرف اپنے ملک کے چپے چپے کی حفاظت کرنا جانتی ہے بلکہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا بھر پور اور موثر جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے عالمی برادری کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں۔
افواج پاکستان میںڈسپلن کا ایک مضبوط نظام موجود ہے اور سپہ سالار کا حکم آخری حکم تصورہوتا ہے۔ ہم دنیا بھر میں دیکھتے ہیں کہ فوجی سربراہ حکمرانوں کے دست بازو بن کر رہتے ہیں۔ روس اور چین میں ان کی مرکزی حیثیت ہے جب کہ امریکا میں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس سپر پاور کو فوج چلا رہی ہے، اس تناظر میں دیکھا جائے تو ریاست پاکستان میں بھی فوج کا اہم ترین کردار رہا ہے اورعوام میں بجا طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ افواج پاکستان ہی ہماری بقاء اور سلامتی کی ضمانت اور علامت ہیں۔
ہر مشکل وقت میں پاکستانی عوام اپنی فوج کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور فوج نے بھی کسی مشکل میں عوام کو کبھی تنہا اور بے آسرا نہیں چھوڑا ۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ پاکستانی ریاست کے معاملات میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ فوج کا عمل دخل بھی ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔
آج کے مقبول عام جمہوری طرز حکومت میں فوج کی حکمرانی یا سیاست میں فوجی مداخلت کو پسند نہیں کیا جاتا اور اسے جمہوریت میں دخل اندازی قرار دیا جاتا ہے لیکن اس پاکستانی سیاست کاکیا کیا جائے جس کو شروع دن سے ہی آمریت کا تڑکہ لگتا آیا ہے اور ہمارے نام نہاد جمہوری حکمران ہر وقت فوج کی آشیر باد کے منتظر رہتے ہیں۔
یہ ایک طویل بحث ہے کہ فوج کو سیاست میں کون مدعو کرتا ہے اور ان کی آمد پر شادیانے کون بجاتا ہے۔بہر کیف نئے فوجی سربراہ کمان سنبھال چکے ہیں ان سے اچھے فیصلوں کی توقعات ہمارا حق ہیں، خدا کرے وہ ہمارا حق ادا کرتے رہیں اور ہم ان کی دفاعی ضروریات کی مقدم سمجھیں تا کہ وہ ہمارے دشمنوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو سکیں۔
ہمارے دشمنوں میں صرف بھارت ہی نہیں اور بھی بہت ہیں جو ہمارے ایٹم بم کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور ہمارے مشکل ترین معاشی حالات اس پر مستزاد ہیں جن میں عالمی ساہوکاروں نے ہمیں اپنی فاش غلطیوں کے سبب جکڑ رکھا ہے۔
ان فاش غلطیوں کی درستگی میں جنرل عاصم منیر کو اپنا حصہ ڈالنا ہے ۔ قوم ، فوج اور اپنے سپہ سالار کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہے۔ انھی مشکل حالات میں ہمیں معاشی محاذ پر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے اور اس بنیاد میں سیاست دانوں کے ساتھ افواج پاکستان نے بھی کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ قوم بے چینی سے اپنے رہنماؤں اور محافظوں کی جانب دیکھ رہی ہے۔