گیارہ برس بیت گئے اور کیسے
میں جیل جاتا رہا اور وہ دیگر خواتین کے ساتھ مل کر حکمرانوں کے خلاف تحریک چلاتی رہی
جب میں کالم لکھ رہا ہوں تب 6 اور 7 دسمبر کی رات ہے اور ایسے لگ رہا ہے جب میں دسمبر 1945 کو کراچی سٹی ریلوے کے کوارٹر میں بولٹن مارکیٹ کے قریب لیڈی ڈفرنٹ اسپتال میں نور محمد خان پٹھان کے گھر پیدا ہوا۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ ملک میں برطانیہ کی حکومت تھی یا پھر ہندوستان یا پاکستان کی، بعد میں میرے ابا اور دادی جان نے بتایا کہ یہ کراچی ہے اور اب ہم پاکستان کے دارالخلافہ کیپٹل سٹی میں رہتے ہیں، خیر مجھے نہیں معلوم کہ میرے والد صاحب کب مجھے اپنے قصبے یا گاؤں کلیانہ لے کر گئے تھے وہ تو مجھے بعد میں دادی نے بتایا جب میں تین برس کا تھا ۔
خیر اب عملی زندگی کی طرف آتے ہیں۔ 1969 میں ریلوے میں عارضی ملازمت پر بھرتی ہوگیا۔ تھوڑا بہت مذہبی اور سیاسی بھی ہو گیا تھا۔ شاعری کا رجحان بھی تھا، امریکا کے خلاف ویت نام کی حمایت میں ایک نظم بھی لکھی تھی۔ ایوب خان کا دور تھا اور آخری سال تھے۔ ملک بھر میں مظاہرے اور ہڑتالیں ہو رہی تھیں۔
اکتوبر 1967 میں ریلوے میں ملک گیر ہڑتال ہوگئی تھی۔ ریلوے میں کمیونسٹ پارٹی حسین نواز طفیل عباس، ذکی عباس، پی آئی اے والوں کے ساتھی بھی یونین میں کام کر رہے تھے اور ماہنامہ ''منشور '' بھی نکالتے تھے۔ وہ ہر ماہ مجھے چار آنے میں دیتے تھے سو میں ان کے رابطے میں تھا۔ ہڑتال کو تین روز ہوگئے تھے ایک دن ایک لیڈر نے مجھے بھی پکڑ کر ہڑتالی ملازمین کے پاس کراچی کینٹ ڈیزل ورکشاپ کے پاس لے گیا لال جھنڈے پکڑے اور نعرے لگاتے مزدور ریلوے ٹریک پر بیٹھے ہوئے تھے جسے اب دھرنا کہتے ہیں۔
خیر ایک تقریر کے بعد ایک لیڈر نے اعلان کیا کہ ایک نوجوان شاعر منظور رضی آپ کو ایک انقلابی نظم سنائے گا۔ میں حیران اور پریشان ہو گیا کہ میرا یونین کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اس نظم سے بھی یونین کا تعلق نہ تھا۔
خیر مجھے تختے نما اسٹیج پر چڑھا دیا گیا ابھی میں نے پہلا بند ہی پڑھنا شروع کیا تو فوراً فوج آگئی اور میں چونکہ اسٹیج پر تھا، مجھے فوجیوں نے پکڑ لیا، میں کہتا رہا کہ میرا کوئی تعلق بھی یونین سے نہیں ہے مگر پھر میرے سمیت لیڈر اور تیرہ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا اور فریئر تھانے میں 14 روز کا ریمانڈ اور پھر ایک ماہ جیل ہوگئی۔
کراچی جیل پوری طرح بھری ہوئی تھی اور ایوب خان کے خلاف تھی، یہ میری پہلی گرفتاری تھی۔ جیل میں ، میں نے میکسم گورکی کی معروف انقلابی کتاب ''ماں'' پورے 20 دن میں پڑھی تھی اور تھوڑا سا انقلابی بن گیا تھا اور بعد میں 1968 میں تمام لیڈران سمیت مجھے بھی ملازمت سے نکال دیا گیا۔
ایوب کی کابینہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے باہر نکل کر 30 نومبر کو لاہور میں پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر رکھ دی اور ہم سب پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر اس کے بنیادی ممبر بن گئے۔ یہ لمبی کہانی ہے اب میں دوسری طرف آتا ہوں۔
میرے والد نے مجھے 1969 میں دوبارہ کمرشل میں بطور بکنگ کلرک بھرتی کرایا اور اس طرح ہم 1969 میں لاہور میں والٹن ٹریننگ اسکول میں 6 ماہ کی ٹریننگ پر چلے گئے اور پی پی پی کا کام بھی کرتے رہے۔ ہمارا اور پیپلز پارٹی کے منشور کے چار نقاط اہم تھے۔
روٹی، کپڑا اور مکان، سوشل ازم ہماری معیشت، طاقت کا سرچشمہ عوام، اسلام ہمارا دین ہوگا۔ وقت گزرتا گیا 1969 دسمبر میں لاہور والٹن سے کراچی آگئے۔ اب ایک دوسرا رخ جس کی وجہ سے میں نے یہ تحریر لکھنی تھی کیوں اور کیسے ۔ 11 برس کیسے گزرے یہ بھی ضروری ہے۔ جو میرے تلخ ترین ایک سال پر محیط ہیں۔
قصہ مختصر میری شادی بدین اور پھر میرپور خاص سندھ میں 11 فروری1971 کو طے پائی۔ ہم برات لے کر ریل کار کے ذریعے کراچی اپنے گھر آگئے میری بیوی اچھی خوبصورت اور خوب سیرت اور مذہبی تھی جس نے میرے ساتھ 40 برس گزارے۔ میں جیل جاتا رہا اور وہ دیگر خواتین کے ساتھ مل کر حکمرانوں کے خلاف تحریک چلاتی رہی۔ اس دوران میری ایک بیٹی رخسانہ رضی پیدا ہوئی۔
ہم 1974 میں پیپلز پارٹی کے دور میں گرفتار کرلیے گئے تھے میرے ساتھ معراج محمد، لال بخش رند، احمد الطاف اور وہ سارے لیفٹ کے لیڈر جن میں پیپلز پارٹی بنانیوالے بھی شامل تھے ریلوے کے وزیر غلام مصطفیٰ جتوئی صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو تھے اور بدین ہی کے رہنے والے سندھ کے ہوم سیکریٹری محمد خان جونیجو(وزیر اعظم والے جونیجو صاحب نہیں تھے) ہمیں کراچی جیل، حیدر آباد جیل، خیرپور جیل اور سکھر جیل میں DPR کے تحت ساڑھے آٹھ ماہ تک جیل میں رکھا گیا۔
اس دوران انجمن جمہوریت پسند خواتین کے ریلوے ملازمین کی خواتین بھی میری بیوی بانو رضی عارف آزاد کی والدہ سمیت 100 کے قریب خواتین جلسہ جلوس کرتے رہے بعد میں غلام مصطفیٰ جتوئی وزیر اعلیٰ بن گئے اور ریلوے وزیر خورشید حسن میر ہوگئے، مگر ہم جیل میں بند رہے۔ ہمارے جنرل سیکریٹری ہدایت اللہ عباسی اور ایم پی کراچی عبدالوحید عرشی اور میری بیوی نے ممتاز علی بھٹو سے ملاقات کی۔
انھوں نے بڑے بھٹو صاحب سے بات کرنے کا وعدہ کرکے ہماری رہائی کا وعدہ بھی کیا۔ اس طرح ہمیں نومبر 2014 میں حیدرآباد جیل سے ضمانت پر رہائی مل گئی۔ میری شریک حیات نے بڑی قربانیاں دیں میرے چاروں بچوں رخسانہ رضی، کامران رضی، عدنان رضی اور جبران رضی کو پڑھایا لکھایا اور انھیں جوان بھی کیا۔ اگلی قسط میں پھر لکھوں گا کہ کس طرح بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی۔
مقدمات ختم ہوئے اور ملازمت پر بحال۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے جنرل جاوید اشرف قاضی کے کارنامے بیان کروں گا۔ ریلوے کے 11 مکانات تبدیل ہوگئے۔ چار فلیٹوں میں کرائے پر رہے اور پھر ڈیفنس میں ایک فلیٹ 2002 میں خرید لیا اور بعد میں ڈیفنس DHA فیز سیون میں پلاٹ خرید لیا اور اپنا گھر بنایا جس کی بانو رضی کی بڑی خواہش تھی۔
پھر بیٹی کا رشتہ کیا اور پھر کامران رضی کی شادی پر بہت خوش ہوئی۔ بیٹے کامران ملک سے باہر شادی کی خوشی میں سیر سپاٹے کے لیے بھیج دیا۔ 20 دن کے بعد کامران کراچی آگیا وہ جیو ٹی وی میں 2002 میں ملازم ہو گیا تھا۔ کامران نے موٹر سائیکل کے بعد کار لے لی۔ چھوٹا بیٹا عدنان 6 سال سے آئر لینڈ میں تھا کامران کی شادی پر کراچی 2 ماہ کے لیے اور پھر کامران کی شادی کے ایک ماہ بعد جب کہ ہماری حالت بہتر ہو رہی تھی۔
60 سال بعد گھر بھی بنا لیا تھا بیٹے کی شادی بھی کرلی تھی اور پھر جب اچھے دن آگئے تھے تو اس نے نہ جانے کیا سوچا جمال احسانی کا شعر یاد آگیا:
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے دن سنورنے والے تھے
اور پھر 13 دسمبر 2011 کی صبح وہ اپنے بستر سے اٹھ نہ پائی اور اپنی بیٹی رخسانہ رضی بیٹے کامران رضی، اس کی بیوی اور بیٹے عدنان رضی، جبران رضی اور مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر ایک ابدی دنیا میں چلی گی۔
تیری ہمت، تیری محبت، تیری فکر اور تیرے پیار کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ یہ ایک سال 2011 تا 2012 میں ڈپریشن کا شکار رہا۔
آج 2 بہوؤں ارم کامران، طیبہ عدنان، جبران رضی اور اپنی تین پوتیوں شہر بانو کامران، مہربانو کامران، گل بانو عدنان اور اپنے کمرے میں اخبارات اور کتابوں کے ساتھ رات گئے پڑھتا اور کبھی لکھتا رہتا ہوں اور بس اپنے کمرے میں تنہائی کتابوں اخباروں اور انقلابی دانشوروں، مزدوروں، ٹریڈ یونین کارکنوں، کبھی آرٹ کونسل کبھی پریس کلب میں زندگی کے دن گزار رہا ہوں۔ غم زدہ بھی ہوں، آنکھوں میں آنسو بھی ہیں۔ مگر میں پھر بھی تمہاری یادوں کے سہارے زندہ ہوں، زندہ ہوں۔ کب تک زندہ رہوں گا، خدا حافظ بانو رضی۔