کھودا چوہا نکلا پہاڑ
ہمیں بھی ایک زمانے میں قصہ گوئی کاچسکہ پڑگیا تھا، عام طور پر نانیوں، دادیوں کے قصے تو سنتے رہتے تھے
قصہ گوئی اورداستان طرازی ہمیشہ انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے چنانچہ ہمیں بھی ایک زمانے میں قصہ گوئی کاچسکہ پڑگیا تھا، عام طور پر نانیوں، دادیوں کے قصے تو سنتے رہتے تھے لیکن ہم نے اپنا الگ ایک ذریعہ بھی ڈھونڈا ہوا تھا۔
یہ ایک تانگہ وال تھا ویسے تو تقریباً ہر تانگے والا قصہ گو ہوتا ہے کیوں کہ انجر پنجر تانگے اور ہڈیوں کی مالا،گھوڑی سے توجہ ہٹانے کے لیے قصہ گوئی اس کی پیشہ ورانہ ضرورت ہوتی ہے لیکن جو تانگے والا ہمارے ہاتھ لگا تھا وہ تھوڑا سا شاعر بھی تھا، رباب اورگھڑے کے ساتھ گانے کا شوقین بھی تھا اور کہانیوں کا ایک پورا بھنڈار اس کے پاس تھا ،عام طور پر ہم اسے اپنے کھیتوں کے لیے ہائرکر لیتے تھے،ابتدا ہمیشہ یوں ہوتی تھی ، سنی ہوئی کہوں یا دیکھی ہوئی ۔
آج ہم بھی آپ کو پہلے ایک سنی ہوئی کہانی سناتے ہیں، اس کے بعد دیکھی ہوئی۔ایک تھا سسر جسے داماد سے پرخاش ہوئی چنانچہ اس نے اپنے گھر میں نقب لگا کر داماد پر دعویٰ ٹھونک دیا ، پولیس آئی تو سسر کی ذہانت دیکھ کر عش عش کرنے لگی بلکہ ساتھ تماشائی بھی واہ واہ کر اٹھے اس نے دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ داماد نے نقب لگا کر اتنا اتنا قیمتی سامان چرایا ہے لیکن بیچارا اپنی ذہانت میں یہ بھول گیا تھا کہ داماد نے اندر سے نقب کیسے لگائی کہ نقب کا سارا ملبہ اور اینٹیں اندر ہی پڑی تھیں۔ اور اب ایک دیکھی ہوئی بلکہ ایسی کہانی جس میں ہم بھی شامل ہوگئے تھے ۔
ہمارا ایک ہمسایہ تھا، اردومیں تو ہمسایہ پڑوسی کو کہتے ہیں لیکن پشتو میں ہم سایہ کسی کے مکان میں رہنے والے کو کہتے ہیں، ہمارا یہ ہمسایہ یعنی کرایہ دار بھی گاؤں سے دور زمینوں میں بنے ہوئے مکان میں رہائش پذیر تھا، سوات کا رہنے والا تھا لیکن یہاں بھینسوں اور دودھ کاکاروبار کرتا تھا۔ اس کی اپنے بھائی سے ان بن ہوگئی جو پاس کے دوسرے گاؤں کے کسی مکان میں رہتا تھا۔
جھگڑا لڑکیوں کے رشتے کے لین دین کا تھا ۔پہلے تو اس نے بھائی کو دھمکیوں سے ڈرانے کی کوشش کی لیکن ہمیں خبر ہوئی تو اس کو سمجھایا کہ بازآجا ورنہ اچھا نہ ہوگا کیوں کہ رواج کے مطابق ''ہمسائے '' کی حفاظت بھی مالک مکان کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ایک طرح سے وہ اس کی ''پناہ'' میں ہوتا ہے اور اگر کوئی اسے نقصان پہنچاتا تو مالک مکان اسے اپنے اوپر حملہ تصورکرتا ہے ۔
جس دن ہمارے ہمسائے کی بیٹی کی شادی تھی، سوات سے برات بھی آئی ہوئی تھی، تقریب چل رہی تھی کہ اتنے میں پولیس آگئی اس کے بھائی نے رپورٹ لکھوائی تھی کہ میرے بھائی فلاں نے فلاں کے ساتھ مل کو مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے اور ثبوت کے طور پر اپنی ران کو تھوڑا سا زخمی بھی کرلیا تھا اس کا مقصد تو شادی روکنا تھا لیکن ہم نے اسے ناکام بنا دیا اور پولیس کو یہ کہہ رخصت کردیا کہ رخصتی کے بعد ہم خود ان ملزمان کو پیش کر دیں گے ۔
رخصتی کے بعد ہم تھانے گئے ،ایف آئی آر دیکھی تو معاملہ سیریس تھا اس کی ران واقعی زخمی تھی، تھوڑا سا چکر چلا کر ہم نے ضمانت قبل ازگرفتاری کا سلسلہ چلایا تو ڈاکٹر کی رپورٹ نے سارے معاملے کو آئینہ کر دیا، اس بیوقوف نے ران پر فائرکرتے ہوئے ران کو ننگا کیا تھا لیکن بعد میں اسے خیال آیا کہ ران پر تو شلوار بھی ہوتی ہے چنانچہ شلوارمیں اس نے درانتی سے سوراخ بنوایاتھا۔ چنانچہ ضمانت قبل ازگرفتاری بھی ہوگئی اورکیس مدعی پر الٹ گیا ۔
ایک فلم میں ایک بہت بڑے سیاسی لیڈرکی کہانی ہے جسے ایک جلسے میں دور سے گولی ماری گئی تھی، گولی اس کے کاندھے کو لگی تھی لیکن جب اسے اپنے پرستار لے گئے تو اس کی موت ہوگئی تھی ، زخم سے نہیں بلکہ اس انہیلر سے جو وہ استعمال کرتا تھا، کسی نے اس کے انہیلر میں زہریلی دوا بھری تھی ۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اس شارپ شوٹر کو بھی پکڑا گیا جس نے اس پر گولی چلائی تھی ، شارپ شوٹر نے کہا کہ مجھے اسے قتل کرنے کی سپاری نہیں دی گئی تھی بلکہ صرف زخمی کرنے کی سپاری دی گئی تھی ، تکرار ہوئی تو شارپ شوٹر نے عدالت میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کیاکہ میں اگر چاہتا تو اس کے سر کو بھی نشانہ بنا سکتا تھا لیکن مجھے کندھے پر گولی مارنے کاکہا گیا تھا اور میں نے ٹھیک کندھے پر گولی ماری تھی۔
بادشاہ کے سامنے تیر اندازی کا مقابلہ تھا ، ملانصیر الدین نے تیر چلایا تو وہ دائیں نشانے سے بہت دور لگا لیکن ملا نے کہا کہ یہ فلاں وزیر ایسا نشانہ لگاتا ہے، مسلسل پانچ تیر چلائے جو نشانے کے ادھر ادھر لگے اور ملا اسے کسی وزیرکا نشانہ کہہ دیتے آخر کار ایک تیر نشانے پر اتفاقاً پڑا تو سینہ ٹھونک کر بولا ،اور میں ایسا نشانہ لگاتا ہوں ۔ان سادہ لوحوں نے ساری منصوبہ بندی میں یہ خیال ہی نہیں رکھا کہ نشانہ باز کم ازکم ملانصیرالدین جیسا تو نہ ہو اتنا بڑا منصوبہ اور اتنا کچا نشانے باز ۔کھودا چوہا اور نکلا پہاڑ۔ چوہے سے پہاڑ برآمد کرنا اسے کہتے ہیں ۔