کراچی وہ گائے جو دودھ دیا کرتی تھی

دن دہاڑے اسلحے کے زور پر لٹنا اور ذرا سی مزاحمت پر قتل ہوجانا اس شہر میں معمول کی بات بن گئی ہے


امبر دانش December 10, 2022
یہ گائے اب ذبح ہوچکی ہے اور سب نوچ نوچ کر اس کا گوشت کھا رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے استاد محترم کہا کرتے تھے کہ کراچی ایک دودھ دینے والی گائے ہے، جس کو چارہ اس غرض سے کھلاتے ہیں کہ بس اس کا دودھ پیا جاسکے۔ غالباً یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں کاروباری سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوا کرتی تھیں۔ بیرونی ممالک سے لوگ سرمایہ کاری کرنے کراچی آیا کرتے تھے اور لوگ اندرون ملک سے بھی روزی کے حصول کےلیے کراچی کا رخ کرتے۔ حالانکہ یہ زمانہ بھی زیادہ پرانا نہیں، کیونکہ پانی کی قلت تو اس وقت بھی اس شہر میں موجود تھی، بس فرق یہ ہے کہ اس وقت کراچی کے دس فیصد علاقوں میں پانی نہیں آتا تھا اور اب مشکل سے دس فیصد شہر میں پانی آتا ہے۔

کچھ دنوں پہلے استاد محترم سے دوبارہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ہم نے پھر سے کراچی پر سوال کر ڈالا تو درد بھری آواز میں فرمایا، اب یہ گائے ذبح ہوچکی ہے اور سب نوچ نوچ کر اپنے حصے کا گوشت کھا رہے ہیں۔ یہ بات جیسے ہمارے دل کو چیرتی ہوئی نکل گئی کہ واقعی اب گوشت ہی کھایا جارہا ہے، اسی گوشت پر چھینا جھپٹی چل رہی ہے۔

کسی بھی شہر کی معاشی ترقی تین چیزوں پر منحصر ہے؛ شہر کا انفرااسٹرکچر، جس میں سڑکوں کی تزئین و آرائش سرفہرست ہے، جدید اور سستا ٹرانسپورٹ سسٹم، اور امن و امان کی بہتر سہولیات، تاکہ کاروباری حضرات کو تجارتی سرگرمیوں میں کوئئ رکاوٹ درپیش نہ ہو، ملازمین اور شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شہر بھی ڈر و خوف کی فضا سے پاک ہو۔ شہر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا براہ راست اثر تجارتی و کاروباری سرگرمیوں پر پڑنا ایک لازمی امر ہے، اسی طرح شہری سہولتوں کے فقدان سے سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔

لیکن اس شہر میں برسوں سے انفرااسٹرکچر پر کوئی کام نہیں ہوسکا۔ سڑکوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے، بالخصوص حالیہ بارشوں کے بعد تو سڑکوں پر سفر تو درکنار، پیدل چلنا بھی محال ہوچکا ہے۔ 2001 سے 2010 تک جنرل پرویز مشرف کے دور میں نئے بلدیاتی نظام متعارف کرانے کے بعد شہر میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا اور واقعی کراچی میں انفرااسٹرکچر بنا۔ روڑ، انڈر بائے پاسز، پل اور عوامی پارک بنائے گئے لیکن 2010 کے بعد اسی انفرااسٹرکچر کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ بلدیات و سندھ حکومت کی جانب سے بنے ہوئے انفرااسٹرکچر کی نگہداشت اور مینٹی ننس نہ ہونے سے آج زبوں حالی کا شکار ہے۔

شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں ہے، پبلک ٹرانسپورٹ تو عرصہ دراز سے ختم ہوچکی ہے، پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا بے ہنگم نظام چل رہا ہے۔ دنیا کے چھٹے بڑے شہر کو چنگچی رکشاؤں کے حوالے کردیا گیا ہے، جو من پسند روٹ بنا کر شہر کو برباد کررہا ہے۔ پرائیویٹ بس و منی بس مافیا اپنی مرضی کا کرایہ وصول کرکے شہریوں پر دہرا عذاب نازل کر رہے ہیں۔ ایک تو مہنگائی دوسرا ٹرانسپورٹ نظام سے محروم شہری مجبورً اس مافیا کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔

2007 میں مکمل ہونے والے K3 پانی کے منصوبے کے بعد کراچی میں گزشتہ 15 سال سے پانی کا کوئی منصوبہ نہیں بنا۔ اس دوران کراچی کی آبادی روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی رہی۔ 2007 میں کراچی کےلیے شروع کیا جانے والا پانی منصوبہ K4 آج 15 سال گزر جانے کے باوجود التوا کا شکار ہے۔ 25 ارب روپے کا پروجیکٹ ایک سو پچاس ارب روپے تک پہنچ چکا ہے لیکن آج بھی اسی حالت میں پڑا ہے۔ کراچی میں پانی کی شدید قلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کراچی کی اکثریت پانی خرید کر استعمال کرتی ہے۔ شہر پر ٹینکرز مافیا کا راج ہے، کئی علاقوں میں تو دس دس سال سے پانی نلکوں میں نہیں آیا۔

20 سال میں شہر میں کوئی نئی سرکاری یونیورسٹی نہیں بنائی گئی۔ جو پہلے سے ہیں، وہاں بھی یہ نوبت آگئی ہے کہ اساتذہ کو تنخواہیں وقت پر نہ دیے جانے کی وجہ سے آئے دن اساتذہ بھی سراپائے احتجاج ہیں۔

دن دہاڑے اسلحے کے زور پر لٹنا اور ذرا سی مزاحمت پر قتل ہوجانا جیسے اس شہر میں معمول کی بات بن گئی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان حالات میں یہ بیرونی ممالک اپنے کاروبار کےلیے کم از کم اس شہر کا رخ تو نہیں کرنا چاہیں گے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر گائے دودھ دیتی رہتی تو کیا زیادہ بہتر نہ تھا؟

ہر دور کے سیاست دان نے شہر کو ترقی دینے کا وعدہ کیا، لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود مرکز، صوبائی و بلدیاتی حکومتیں اس شہر میں ترقیاتی کام نہ کراسکیں، گویا کوئی اَن دیکھی طاقت انہیں روکے بیٹھی ہو۔ ذرا سوچیے کہ قیام پاکستان سے اب تک کراچی کا ایک بھی ماسٹر پلان پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اور شہر گندگی کا ڈھیر بنتا چلا گیا کہ پھر کچرا اٹھانے کےلیے بھی چین سے مدد لینے کی ضرورت آن پڑی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کسی سدھار کی امید باقی ہے؟ اور کس سے امید کی جاسکتی ہے؟

بھٹو کے زمانے سے جب بھی پاکستان میں جمہوری نظام قائم ہوا تو ایک ہی جماعت نے سندھ پر راج کیا۔ لیکن کراچی میں جہاں برٹش راج سے ستر کی دہائی تک ٹرامز چلا کرتی تھیں اور ملک کا واحد سرکلر ریلوے سسٹم موجود تھا، وہ بھی بند کردیا گیا۔ پرویز مشرف کے لائے گئے بلدیاتی نظام اور کچھ حد تک شہر میں اس کی ذاتی دلچسپی نے شہر کی حالت کچھ عرصہ بہتر ضرور ہونے دی لیکن پچھلے پندرہ سال سے اس شہر کا سفر پستی کی جانب گامزن ہے جس کا سہرا پوری طرح موجودہ صوبائی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے سر ہے۔

تبدیلی سرکار کے دعوے بھی دعوے ہی رہے، اس شہر کےلیے پہلے 65 ارب اور پھر گیارہ سو ارب کے ہوائی پیکیج کے اعلان کے علاوہ کوئی کام نہ کرسکی۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات مزید عیاں ہوگئی کہ کراچی کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں انہیں کوئی خاص شغف تھا بھی نہیں۔ پونے چار سال کے دوران وفاق کی جانب سے ایک ممبر قومی اسمبلی کو ایک ارب سے زیادہ کی رقم جاری کی گئی لیکن چودہ ارکان اسمبلی نے یہ اربوں روپے کہاں کھپائے اس کی تفصیلات جاننے سے عوام محروم ہیں۔

شہری سندھ میں مہاجروں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار سیاسی جماعت جو کہ اب مختلف گروہوں میں تقسیم ہوکر مزید سکڑ چکی ہے، جس کی وجہ شہرت عوام کے درمیان اترنا تھی، آج عوام ہی سے بیگانے ہوکر تباہی کے دوراہے پر آچکی ہے۔ رہی سہی کسر صوبائی حکومت، جس کی کارکردگی سے عوام پہلے ہی نالاں تھے، ان کا اتحادی بن کر پوری کردی۔

آج بھی یہ تمام سیاست دان اس شہر کی زبوں حالی پر ماتم کناں ہونے کے بجائے آپس کی ''سیٹلمنٹ'' میں مشغول ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے جیسے کل نہیں آنے والی، لہٰذا جو حاصل کرنا ہے ابھی کرلیا جائے۔ کیونکہ اب گائے کا دودھ تو ملے گا نہیں، لہٰذا جتنا گوشت بٹور لیا جائے اتنا اچھا ہے۔ اور عوام؟ اس کا حال اس سہمے ہوے میمنے کی طرح ہے جو اپنی آنکھوں سے گائے ذبح ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہو۔ لہٰذا کراچی کے عوام نے تو چپ ہی رہنا ہے۔ اپنے حق کےلیے آواز اٹھائی تو آواز بند ہوجانے کا اندیشہ ہے اور اپنے پیچھے پریشان رہ جانے والے بیوی، بچوں کی کفالت کا خوف اسے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف سر اٹھانے کی اجازت ویسے بھی نہیں دیتا۔ اور وہ یاد کرتا ہے کہ جس شہر میں پانی بھی وہ اپنی جیب سے خرید کر پیتا ہو، وہاں اس کے پیچھے روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ پانی کا بندوبست کیسے ہوگا؟ یا پھر کسی امیر زادے کے ہاتھوں دنیا سے چلے جانے پر خون معافی کے نام پر شاید گھر والوں کو کچھ مل جائے ورنہ جان کی امان اسی میں ہے کہ انسان شرافت سے چپ سادھ کر زندگی گزارے اور اگر راہ چلتے کوئی موبائل فون یا قیمتی اشیا لوٹنے کی کوشش کرے (جو کہ مشکل ہی اس کے پاس سے برآمد ہو) وہ فوراً لٹیروں کو بغیر مزاحمت کے دے دے۔ اور شکر کرے کہ جان و عزت بخشی ہوگئی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں