اسمٰعیل تارا ٹی وی اسٹیج اور فلم کا دُلارا تھا
اسمٰعیل تارا کو فلمی دنیا میں بھی بڑی پذیرائی ملی اوراس نے پھر کراچی کے علاوہ لاہورکی بھی بہت سی فلموں میں بھی کام کیا
معین اختر، عمر شریف کے بعد اسمٰعیل تارا ایک ایسا باصلاحیت فنکار تھا جس نے ہر نوعیت کے کردار اس طرح کیے تھے کہ وہ جس کردار میں بھی آتا تھا وہ اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھر دیتا تھا۔
یہ میری خوش قسمتی کہ ان تینوں فنکاروں سے میری بڑی دیرینہ دوستی تھی، اس وقت معین اختر شادی بیاہ کے فنکشنوں میں بحیثیت مزاحیہ فنکار بڑا مقبول تھا، اس نے پہلی بار جس فلم میں مزاحیہ اداکاری کا آغاز کیا وہ میری لکھی ہوئی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' تھی۔ پھر میں کچھ عرصے بعد لاہور چلا گیا، وہاں فلم انڈسٹری سے دس سال وابستہ رہنے کے بعد واپس جب کراچی آیا تو کراچی میں معین اختر، عمر شریف اور اسمٰعیل تارا کی دھوم مچی ہوئی تھی۔
معین اختر ٹیلی وژن کا نامور ترین فنکار جب کہ عمر شریف اسٹیج کا مقبول ترین اداکار اور اسمٰعیل تارا ٹیلی وژن کے مقبول مزاحیہ پروگرام ''ففٹی ففٹی'' کی وجہ سے ہزاروں دیکھنے والوں کی آنکھ کا تارا بنا ہوا تھا۔ اسمٰعیل تارا اپنے پروگراموں کے اسکرپٹ بھی خود لکھتا تھا اور مزاحیہ خاکے ٹیلی وژن کے ذریعے سارے پاکستان میں پسند کیے جاتے تھے۔
وہی دور اسٹیج ڈراموں کا بھی دور تھا، اور آدم جی آڈیٹوریم میں اسٹیج ڈراموں کا مقبول سلسلہ جاری تھا، معین اختر، عمر شریف، اسمٰعیل تارا اور شہزاد رضا ان دنوں فلم کے اداکاروں سے زیادہ مقبول تھے اور ان کے ڈراموں کی مقبولیت نے فلموں کی مقبولیت کا گراف گرا دیا تھا۔
میں نے لاہور سے آنے کے بعد بحیثیت کمرشل پروڈیوسر نئے سرے سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا کیونکہ فلمی صنعت ان دنوں زوال پذیر ہو چکی تھی۔ پھر میں نے بھی ایک اسٹیج ڈرامہ آدم جی آڈیٹوریم پر ''مقدر کا سکندر'' کے نام سے شروع کیا تھا اور اس کی کاسٹ میں عمر شریف، اسمٰعیل تارا، شہزاد رضا، خالد ظفر اور گرج بابو کی چھوٹی بیٹی ظل ہما خاص طور پر شامل تھی۔ اس وقت عمر شریف، اسمٰعیل تارا، شہزاد رضا اور رزاق راجو بھی مہنگے ترین فنکار تھے اور وہ جس ڈرامے میں ہوتے تھے وہ ڈرامہ سپرہٹ ہوتا تھا۔
میں جب لاہور سے واپس کراچی لوٹا تو میں تہی دامن تھا، تو میرے ان آرٹسٹ دوستوں نے بڑا تعاون کیا تھا اور مجھ سے برائے نام ہی معاوضہ وصول کیا تھا۔ میرا ڈرامہ ان آرٹسٹوں کی وجہ سے اتنا ہٹ ہوا کہ چھ ماہ کے بعد اس کو دوبارہ اسٹیج کیا گیا۔ دوسری بار اس ڈرامے میں اداکار انیل چوہدری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ میں اپنے دوست فنکاروں کے تعاون کو کبھی بھول نہیں سکتا۔
اب میں اسمٰعیل تارا کی طرف آتا ہوں۔ اسمٰعیل تارا ایک مزدور فنکار تھا اس کے چھ بچے تھے، اس کی واجبی سی تعلیم تھی، مگر اس نے اپنے بچوں کی اچھی پرورش بھی کی اور ان کو اچھی تعلیم بھی دلوائی، وہ ایک مزدور کی طرح فن کا ایک بیلچہ اٹھائے روز گھر سے نکلتا تھا اور پھر دن رات اسٹیج اور ٹیلی وژن کے ڈراموں سے منسلک رہتا تھا۔
اسمٰعیل تارا کو فلمی دنیا میں بھی بڑی پذیرائی ملی اور اس نے پھر کراچی کے علاوہ لاہور کی بھی بہت سی فلموں میں بھی کام کیا جہاں اس کے ٹیلی وژن ڈراموں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں خاص طور پر ففٹی ففٹی، نادانیاں، ربر بین، ون وے ٹکٹ، بلبلے، نمک پارے، یہ زندگی ہے، ماموں، دہلی کالونی، اورنگی ٹاؤن کا انوری اور مکرانی زبان کے ساتھ پیش کیے گئے پروگرام لیاری کنگ لائیو کے ساتھ ساتھ برفی لڈو، جن کی آئے گی برات نے بڑی شہرت حاصل کی۔
اسی طرح فلمی دنیا میں بے شمار اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان فلموں میں جو قابل ذکر ہیں ہاتھی میرے ساتھی، کبھی ہاں کبھی ناں، آخری مجرا، چیف صاحب، منڈا بگڑا جائے، دیواریں، ہم کسی سے کم نہیں، راجو، مجھے جینے دو، مجھے چاند چاہیے، کھلے آسمان کے نیچے، میں شاہد آفریدی ہوں، جان جان پاکستان، یہ دل آپ کا ہوا اور فلم ٹینا شامل ہیں۔
کیمرہ مین ہدایت کار جان محمد جمن نے جن دنوں لاہور میں فلم ٹینا کا آغاز کیا تھا ان دنوں میں بھی لاہور میں تھا اور اسمٰعیل تارا بھی لاہور میں موجود تھا۔ فلم ٹینا میں محمد علی، بابرہ شریف، فیصل رحمن کے ساتھ اداکار اسمٰعیل تارا بھی فلم میں شامل تھا۔ اس فلم میں، میں نے بھی مسرور انور کے ساتھ گیت لکھے تھے اور ایک گیت جو میں نے لکھا تھا وہ اداکار فیصل رحمان اور اسمٰعیل تارا پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت کے بول تھے:
اے بھائی سن میری بات
کس نے دیکھا ہے کل آج ہے زندگی
قسمت والا وہی جس نے پائی خوشی
واپسی کا پھر اسے ٹکٹ نہیں ملتا ہے
جیسا چاہو کرو بس اک چانس ہے
اے بھائی سن میری بات
اس گیت کی موسیقی ایم اشرف نے دی تھی اور اے نیر نے یہ گیت بڑے خوبصورت انداز میں گایا تھا۔ اسمٰعیل تارا کو ایک یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے یکے بعد دیگرے پانچ فلموں میں نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا اور وہ فلمیں تھیں آخری مجرا، چیف صاحب، دیواریں، ہاتھی میرے ساتھی اور شمیم آرا پروڈکشن کی فلم منڈا بگڑا جائے شامل تھی اور یہ تمام فلمیں باکس آفس پر بھی ہٹ فلمیں تھیں۔
بحیثیت مزاحیہ آرٹسٹ اسمٰعیل تارا نے بھی ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس نے مختلف انداز کے سب سے زیادہ کردار ادا کیے ہیں اور ہر کردار میں یہ انگوٹھی میں نگینہ کی طرح بن کر چمکتا رہا ہے۔ اسمٰعیل تارا کے کچھ ڈراموں میں اداکارہ زیبا شہناز اور اداکار ماجد جہانگیر کی جوڑی کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ایک مزاحیہ پروگرام میں اسمٰعیل تارا اور ماجد جہانگیر کو بڑی شہرت ملی اور دو جملے بڑے مقبول عام ہوئے تھے:
کیا کہہ رہا ہے بھئی
عجب کہہ رہا ہے بھئی
جب کہ ان دونوں آرٹسٹوں کے منو اور ببوا کے کردار بھی بڑے ہٹ ہوئے تھے۔ ٹیلی وژن کی دنیا میں جس طرح اسمٰعیل تارا کو شہرت ملی تھی ایسی شہرت اور مقبولیت شاید ہی کسی دوسرے اداکار کو حاصل ہوئی ہوگی۔ اسمٰعیل تارا کو کئی فلم سازوں نے لاہور میں مستقل رہنے کے لیے کہا مگر اسمٰعیل تارا ہر بار یہی کہتا تھا کہ میں اسٹیج اور کراچی کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔
اسے لاہور میں ہر طرح کا تعاون حاصل تھا، مگر وہ لاہور کے ماحول میں کسی طور پر بھی ایڈجسٹ نہیں کرسکا تھا۔ پھر وہ کہتا تھا کہ فلمی دنیا کی روزی ہوائی روزی ہے فلم ہٹ ہے تو سب کچھ ہٹ، فلم فلاپ تو آرٹسٹ کو کوئی پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کراچی واپس آگیا تھا اور ڈراموں کی دنیا سے وابستہ ہو گیا تھا۔
اس نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق بے شمار کردار ادا کیے تھے، وہ گردوں کی بیماری کی وجہ سے آخری دنوں میں بڑا پریشان رہنے لگا تھا، مگر اس نے بیماری کو کبھی اپنے اوپر طاری نہیں کیا، وہ آخری دنوں میں بھی ایک ڈرامہ ''وہ پاگل سی'' میں کردار ادا کر رہا تھااور میں بھی وہ ڈرامہ بڑے شوق سے دیکھتا تھا۔ مجھے ٹی وی چینل کے ذریعے ہی اس کے انتقال کی خبر ملی تھی۔
میرے لیے بھی یہ بڑے دکھ کی خبر تھی اور اس کے تمام چاہنے والوں کے لیے بھی یہ خبر بجلی بن کر گری تھی۔ اسمٰعیل تارا چھوٹی سے بڑی اسکرین تک چھا گیا تھا، وہ ایک مخلص دوست، محنتی انسان اور بڑا فنکار تھا۔ اللہ اس کی مغفرت کرے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔(آمین)