درمیانی راہ
اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صفر بھی ہو جائے تب بھی پاکستان قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتا
پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کے دو ایسے ممالک ہیں جو اپنی آزادی کے دن سے لے کر آج تک ایک دوسرے کے مقابل چلے آ رہے ہیں، دو ایٹمی ملک ہیں۔
خطے کا امن اس بات میں مضمر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے ہمسایوں کی طرح خوشگوار تعلقات قائم ہوں، لیکن یہ خواب سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی تشنہ تعبیر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک سے زائد جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہم اپنا ایک بازو مشرقی پاکستان گنوا چکے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان خطے میں امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ بھارت سمیت آس پاس کے تمام ممالک کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ مراسم کا خواہاں ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ و دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کی جانب سے سیاسی و سفارتی سطح پر عالمی برادری کو امن کی خواہش سے برملا آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہمارا پڑوسی ہماری اس مخلصانہ اور سنجیدہ آرزو کو اہمیت دینے اور خطے کے امن کو برقرار رکھنے میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں ہے، روز اول سے پاک سرزمین کے خلاف خفیہ سازشیں بھارت کی سیاسی و عسکری ہر دو قیادت کا وطیرہ چلا آ رہا ہے۔ وقفے وقفے سے لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں اور جنگ بندی کے معاہدوں کے خلاف ورزیاں بھارت کا معمول رہا ہے۔
ابھی چند روز پیشتر بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی کہ گلگت بلتستان جلد بھارت کا حصہ ہوگا تاکہ نریندر مودی کے اس خواب کی تکمیل ہو سکے جس کا آغاز اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں انضمام سے ہوا تھا۔
بھارتی فوج کے ایک جنرل آفیسر کمانڈنگ انچیف نے اپنے وزیر دفاع کے بیان کے جواب میں بڑی رعونت سے کہا کہ ہم اس کے لیے یعنی گلگت بلتستان پر قبضے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ دفتر خارجہ پاکستان نے سفارتی سطح پر بھارتی وزیر دفاع کے بیان کو شر انگیزی قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کردیا اور اسے بھارت کی توسیع پسندانہ سوچ کا عکاس قرار دیا۔
پاک فوج کے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھارت کے فوجی افسر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے متنازع بیانات کا سنجیدہ نوٹس لیا اور سخت لہجے میں بھارت کو خبردار کیا کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ پاک فوج دشمن کو اس کے گھر میں گھس کر مارنے کی صلاحیت، اہلیت اور بھرپور قوت رکھتی ہے۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ''میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف اپنے ملک کے ہر چپے کے دفاع کے لیے بلکہ دشمن کو بھرپور جواب دینے کے لیے بھی تیار ہے۔'' آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا مزید کہنا تھا کہ ''بہادر قوم کے تعاون سے ہماری مسلح افواج دشمن کی کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا پوری قوت کے ساتھ جواب دے گی۔''
آرمی چیف نے فرنٹ پر تعینات فوجی جوانوں و افسروں سے خطاب کرتے دو ٹوک اور صاف الفاظ میں عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور قیام امن کو یقینی بنایا جائے تاکہ خطے میں بہتر صورتحال برقرار رہ سکے اور پاک بھارت کشیدگی میں بھی کمی واقع ہو۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی، تنازعات اور جنگ کا پس منظر مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی واضح قراردادیں موجود ہیں جن کیمطابق بھارت اس بات کا پابند ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کے لیے ریفرنڈم کرائے، تاکہ کشمیری عوام اپنی مرضی سے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ملک کے ساتھ رہنے کا آزادانہ فیصلہ کرسکیں۔
نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا بھارت کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق حل کرنے سے گریزاں ہے۔ اس ضمن میں سیکریٹری خارجہ سے وزیر اعظم تک کی سطح کے مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن بھارت کے غیر سنجیدہ طرز عمل کی بدولت کسی مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اس باعث تنازع کشمیر آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔
بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب آنے کے بجائے الٹا گلگت بلتستان پر جارحیت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ بہادر پاک فوج مادر وطن کے دفاع کے لیے ہمہ وقت چوکس اور پوری طرح تیار ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بھرپور حربی صلاحیت رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ پاک فوج بلکہ عوام الناس بھی قوت ایمانی کے ساتھ بھارتی جارحیت کے خلاف اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی اظہرمن الشمس ہے کہ دشمن اندرونی کمزوریوں سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتا ہے۔
ملک کے اندر سیاسی و معاشی استحکام کے بغیر بیرونی سازشوں اور دشمن کے عزائم و ناپاک ارادوں کو ناکام نہیں بنایا جاسکتا۔ بدقسمتی یہ کہ اندرون وطن نہ سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی معاشی استحکام۔ ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ قرضوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قومی معیشت ہر گزرنیوالے دن کے ساتھ مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے قرضوں کی فراہمی کے لیے من مانی سخت شرائط عائد کرنے پر مصر ہیں۔ پاکستان کے ایک بڑے بروکیج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی جانب سے ملک کی معاشی صورت حال پر جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ آیندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں کی واپسی ہے۔
رپورٹ کیمطابق معاشی بحران کی شدت اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صفر بھی ہو جائے تب بھی پاکستان قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتا۔ ادھر سیاسی عدم استحکام کا یہ عالم ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی اور محاذ آرائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل پر مصر ہیں اور فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ حکومت پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کے بعد مقررہ وقت پر انتخابات کرانے کی تکرار کر رہی ہے۔
صدر عارف علوی پی ٹی آئی کی نمایندگی کرتے ہوئے حکومت کے نمایندے اسحاق ڈار سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ حکومت پی ٹی آئی کے درمیان انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے افہام و تفہیم کے ذریعے کوئی درمیانی راہ نکالی جا سکے۔