رائے عامہ کی تشکیل کا سیاسی چیلنج
ہمارے رائے عامہ سے جڑے افراد یا ادارے بانجھ پن سے باہر نکلیں، حالات کا مقابلہ کریں اور لوگوں کو تیارکریں
پاکستان ایک مشکل صورتحال سے دو چار ہے ۔ یہ بحران آج کا نہیں بلکہ کئی دہائیوں پرمشتمل ہے اوراس کی ذمے داری بھی کسی ایک فریق کے مقابلے میں سب فریقین پر آتی ہے۔
اس وقت ہمیں جس بحران کا سامنا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ہماری سیاسی ،سماجی ، معاشی سمیت داخلی و خارجی پالیسیاں ہیں ۔اسی طرح اس ناکامی کو محض حکومتوں یا سیاست دانوں کی ناکامی سے جوڑ کر ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ان حالات کو پیدا کرنے میں اسٹیبلیشمنٹ اور عدلیہ بھی شامل ہیں۔
اس وقت جو بحران ہے یہ محض حکومت نہیں بلکہ ریاستی بحران کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں مختلف اوقات میں سیاست نہیں ریاست کو بچانے کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔
اس طبقہ کے بقول ہمیں اس وقت ضرورت ریاستی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں درکار ہیں اوران کو کیے بغیر ہم بطور ریاست یا معاشرہ اپنی اصلاح نہیں کرسکیں گے ۔یہ جو ہم روائتی او رفرسودہ طور طریقوں کی بنیاد پر ریاستی یا حکومتی نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں یہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکتیں ۔
اصولی طور پر تو اس بحران کے حل کی کنجی سیاسی قیادت یا سیاسی جماعتوں کو ہونا چاہیے ۔ یہ سیاسی قیادت ہی کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مشترکہ لائحہ عمل یا حکمت عملی کو ترتیب دے کر عملی اقدامات کی طرف پیش رفت کرتے ۔ لیکن اس وقت جو سیاسی ماحول ہے اس میں ایک دوسرے کے وجود کو قبول نہ کرنے کی حکمت عملی نے بحران کو اور زیادہ سنگین کردیا ہے۔
حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں سیاسی کشیدگی ، ناپختگی اور انفرادی مفادات کو فوقیت نظر آتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت مسئلہ کا حل کم اور مسئلہ کے بگاڑ کا زیادہ حصہ دار نظر آتی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسائل کے حل کی طرف کیسے پیش رفت کی جائے ۔ اس تناظر میں ایک بڑی ذمے داری اس ملک میں موجود رائے عامہ تشکیل دینے والے انفرادی افراد یا اجتماعی اداروں پر ہی عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کے اندر سے اپنی ہی سیاسی قیادت کے خلاف بات کرنا یا ان کے موجودہ طرزعمل پر تنقید یا مزاحمت فی الحال ممکن نظر نہیں آتی۔
ایسی صورت میں اس طرز کا کردار او راس کی ذمے داری اسی رائے عامہ تشکیل دینے والوں کی بنتی ہے ۔ ان میں صحافی ، قلم کار ، تجزیہ کار، علمی و فکری ماہرین ، دانشور، شاعر، ادیب ، مصنفین ،استاد، وکلا پر عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی درست سمت کی تعین اور ایک مضبوط ترقی سے جڑے بیانیہ پر کھل کر سامنے آئیں اور ریاست سمیت حکومتوں یا حزب اختلاف پر دباو ڈالیں کہ وہ اپنا قلبہ درست کریں ۔ ان کے سامنے موجودہ نظام یاپالیسی کے مقابلے میں اپنا متبادل بیانیہ پیش کریں۔
اگرچہ یہاں عامہ تشکیل دینے والے افراد یا ادارے بھی سیاسی تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔اسی طبقہ میںسے ایک بڑے طبقہ نے طاقت کے مراکز کے ساتھ جوڑ کراپنے ہی مفادات کو تقویت دی ہے ۔اس لیے یہ کام آسان نہیں مگر ناممکن بھی نہیں ۔ اس کے لیے خاص طو رپر سکہ بند رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد کے مقابلے میں نئے لوگوں کو جوڑنا ہوگا جن میں دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت بھی ہوسکتی ہے ۔ کیونکہ یہ ہی لوگ جب ریاست یا حکومت پر ایک بڑا دباو اپنی رائے عامہ کی مدد سے ڈالیں تو ان طاقت کے مراکز کا قبلہ بھی درست ہونے کا امکان بڑھ سکتا ہے ۔
پاکستان کا نوجوان طبقہ ایک بڑی سیاسی طاقت ہے ۔ یہ دنیا اب ڈیجیٹل کی دنیا ہے اور سوشل میڈیا رسمی میڈیا کے مقابلے میں بڑی طاقت بن کر سامنے آیا ہے ۔ پوری دنیا میں لوگ رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔ اگرچہ یہ زیادہ ایک پروپیگینڈا یا مخالفانہ مہم کے طو رپر استعمال ہورہا ہے لیکن ہمیںاس سے گھبرانے یا مایوس ہونے کے بجائے نوجوانوں کو اس فورم کو ایک متبادل بیانیہ کی جنگ میں استعمال کرنا ہوگا۔
جو لوگ بھی عقل و فہم یا علمی و فکری بنیاد پر ایک ٹھوس متبادل بیانیہ سب کے سامنے پیش کریں گے تو ان کی رائے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ رائے عامہ سے جڑے انفرادی یا اجتماعی سطح سے جڑے لوگ سوشل میڈیا کی دنیا کو اپنی ترقی کے حق میں استعمال کریں او ربنیادی نوعیت کے سوالات اٹھا کر ریاستی وحکومتی نظام کو مجبور کریں کہ وہ متبادل بیانیہ اختیار کریں۔
جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا محض ایک منفی فورم ہے ان کی باتوں میں الجھنے کے بجائے ہمیں مثبت طور پر اپنا بیانیہ ٹھوس بنیادوں پر پیش کرنا ہوگا ۔اسی طرح یہ نوجوان طبقہ ان رائے عامہ بنانے اولے اہم افراد یا اداروں پر بھی دباو ڈال سکتا ہے کہ وہ ہماری آوازوں کو سنیں اور جو اہم سطح کے قومی معاملات ہیں اس پر پردہ پوشی کے بجائے کھل کر اپنی آواز اٹھائیں ۔ یہ ہی طبقہ سیاسی جماعتوں او رقیادتوں کو بھی جنجھوڑ سکتا ہے کہ وہ اپنے داخلی نظام کا احتساب کرکے اپنی سیاست کے انداز بھی بدلیں۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ رائے عامہ محض میڈیا تک محدود نہیں اسے ہمیں ایک بڑی تصویر یا زیادہ فریقین کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ معاشرے کا ہر طبقہ زمہ دار ہے اس کی اصلاح کے لیے او ریہ کام وہ اسی صورت میں کرسکتا ہے جب وہ خود میں انفرادی سوچ اور فکر کو پختہ کرے کہ اس نے سماج کو بدلنا ہے اور نظام کی تبدیلی کے عمل میں حصہ لیں۔
ہمارے رائے عامہ سے جڑے افراد یا ادارے بانجھ پن سے باہر نکلیں، حالات کا مقابلہ کریں او رلوگوں کو تیارکریں کیونکہ جب رائے عامہ سے جڑے افراد یا ادارے خود مایوسی کا شکار ہوجائیں اور ان کے بقول کچھ تبدیل نہیں ہونا تو اس کا براہ راست فائد ہ ان ہی طاقت ور طبقات کو ہوتا ہے جو ریاستی و حکومتی نظام پر قابض ہیں ۔