ترقی یافتہ ممالک میں خود کشیوں کا رجحان
تیسری دنیا کے ان لوگوں کے لیے یہ امر باعثِ حیرت ہو گا کہ جو مغربی ممالک کو جنتِ ارضی تصور کر چکے ہیں
انسانی زندگی سے قیمتی اور کوئی چیز نہیں ہے، انسان ہمہ وقت اپنی زندگی کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا رہتا ہے۔ خود کشی کا ارتکاب کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے، مگر ترقی یافتہ ممالک میں 2007 میں سامنے آنے والے مالیاتی بحران نے اسے بہت آسان کر دیا ہے۔ سماجی و معاشی عدم استحکام نے لوگوں کے اندر خوف، بے چینی و اضطراب اور زندگی کے حوالے سے مایوسی و غم کی عجیب سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ جہاں سامراجی غاصب ایک طرف کمزور ممالک کے لوگوں کو اپنے معاشی مفادات کی خاطر بموں سے اڑانے میں مصروف رہتے ہیں تو دوسری طرف انھی کے ممالک میں معاشی بحران کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ لوگ خود ہی اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے لگے ہیں۔
تیسری دنیا کے ان لوگوں کے لیے یہ امر باعثِ حیرت ہو گا کہ جو مغربی ممالک کو جنتِ ارضی تصور کر چکے ہیں کہ خود کشیوں کے اس رجحان میں شدید اضافے کی وجہ2007کا مالیاتی بحران ہے۔ طبیعاتی اور سماجی ماہرین سماجی، ثقافتی، نفسیاتی، جینیاتی، اور معاشی مسائل کو خود کشی کی وجوہات کے طور پر تشخیص کرتے ہیں، تاہم گزشتہ چند برسوں سے زندگی کو ختم کرنے کے رجحان میں براہ راست معاشی عوامل ہی کارفرما رہے ہیں۔ اگرچہ عام حالات میں نفسیاتی، خاندانی اور دیگر سماجی و ثقافتی عوامل خود کشی کی وجہ بن سکتے ہیں۔ لیکن بنظر غور تجزیہ کرنے سے عیاں ہوتا ہے کہ ان عوامل کا کسی بھی کسی معاشرے کی معاشی ساخت سے الگ کوئی وجود نہیں ہوتا۔ معیشت ہی ہر معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات کا تعین کرتی ہے۔
گزشتہ بدھ مورخہ26 مارچ کو برطانیہ کے ایک اہم اخبار ''دی گارڈین'' میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ تقریباََ 50 برس کی ایک خاتون نے اس وجہ سے خود کُشی کر لی ہے کہ اس کی ہفتہ وار انکم سپورٹ 94 پائونڈ سے کم کر کے 67 پائونڈ کر دی گئی ہے۔ اس حکومتی اقدام سے اس کو شدید ذہنی جھٹکا لگا اور وہ خاتون خود کشی کی مرتکب ہو گئی۔ بعد ازاں اس کیس کو کافی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور آخری تجزیے میں اس کا تعلق بھی معاشی عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ ہی قائم کیا جاتا ہے۔ ماہرین کی جو مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں ان میں یہ بات یکساں طور پر موجود ہے کہ وہ خاتون بڑی پُرامید تھی اور کام پر واپس جانا چاہتی تھی یعنی وہ شادی کر رہی تھی۔ اس کا علاج بھی ہو رہا تھا اور وہ رضاکارانہ طور پر کام بھی کر رہی تھی۔'' اس کی زندگی میں کوئی ایسی وجہ نہیں تھی کہ وہ خود کشی کی مرتکب ہوتی۔ اسکاٹ لینڈ کے ذہنی فلاح و بہبود کے ادارے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس خاتون کی ذہنی تاریخ بھی ایسی نہیں تھی کہ جس سے یہ تاثر ابھرے کہ وہ کبھی خود کشی کا ارتکاب کر سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اچانک معاشی عدم تحفظ نے اس خاتون کے اندر یہ خوف اور غیر یقینی بیدار کر دی کہ وہ کس طرح اس نظام میں زندہ رہ سکے گی اور جن سہولیات سے وہ مستفید ہو رہی تھی، ان کے بغیر اس کی زندگی کیسے ہو جائے گی؟ سماجی و معاشی امداد کی عدم فراہمی کا احساس اسے موت کی آغوش میں لے گیا۔ سرمایہ دارانہ ممالک میں اکثر ماہرین کی کوشش تو عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ اس طرح کے کسی بھی قسم کے واقعے کی جڑیں اس سماج کی کل ہیئتِ ترکیبی میں تلاش کرنے کی بجائے کسی ایک ایسے پہلو کو اجاگر کر دیا جائے کہ جس سے اس نظام کے نقائص کی وجوہ سامنے نہ آ سکیں، جس سے عوام براہِ راست متاثر ہوتے ہیں اور اگر سامنے لائی بھی جائیں تو ساتھ ہی ساتھ کچھ اور بھی ایسے عوامل کو ساتھ جوڑ دیا جائے کہ ساری صورتحال سے کوئی مبہم سا نتیجہ حاصل کر لیا جائے۔
ان کی اولین ترجیحات میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ اس نظام کو تحفظ دینے والے عوامل کو فروغ دیا جائے، حقیقی انسانوں کی بجائے احساسات و جذبات سے عاری لوگ پیدا کر دیے جائیں، تعلیم و تربیت کا نصاب اس طرح کا متعین کیا جائے کہ وہ خاندان سے دور ہو جائیں اور صرف اور صرف اس نظام کی بقا کے لیے میکانکی انداز میں کام کرتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی فلاح کا کوئی بھی پہلو سرمایہ داری کے تحفظ کی خواہش سے الگ نہیں ہوتا۔ نظری سطح پر تو ماورائی قسم کے 'دانشور' لوگوں کو الٰہیاتی واہموں میں دھکیلنے میں کسی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں اور لوگ بھی معاشی و سماجی عدم تحفظ کو خدا کی رضا تسلیم کرتے ہوئے اپنے جذبات کی نکاسی کسی اور سمت میں کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ سرمایہ داری نظام جس طریقے سے تشکیل پا رہا ہے، اس میں انسان کی اخلاقی، ثقافتی اور خاندانی زندگی مسلسل تنزل و انحطاط کا شکار ہے۔
خود کشی کا یہ واقعہ کوئی ایسا واحد واقعہ نہیں ہے کہ جس نے سرمایہ داری نظام میں معاشی بحران کے نتیجے میں جنم لینے والے رجحان کو عیاں کیا ہے۔ خود کشی امریکا، برطانیہ اور مغربی معاشروں کا لازمی جزو بن چکی ہے، جس میں ہر گزرتے برس کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ ''ترقی یافتہ'' ممالک میں خود کشی سے مرنے والوں کی تعداد حادثات اور ایڈز جیسی مہلک بیماری سے مرنے والوں سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ بی بی سی اور یونیورسٹی آف لیور پول کی ایک حالیہ تحقیق نے بھی خود کشی میں اضافے کی جڑیں 2007 کے معاشی بحران میں ہی تلاش کی ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کہتی ہے کہ حالیہ مالیاتی بحران سے 54 ممالک میں خودکشی کی شرح میں 3.8% اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں اس وقت ہر چھ میں سے ایک انسان ذہنی مرض کا شکار ہو چکا ہے، جب کہ ذہنی امراض کا شکار نوے فیصد لوگ خود کشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر لاکھ لوگوں کو سامنے رکھتے ہوئے خود کشی کا جو تناسب نکالا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 2006 میں خودکشی کا تناسب 11.6 فیصد رہا۔
2011 میں اس میں مزید اضافہ ہوا اور یہ تناسب 11.8 فیصد ہو گیا۔ مالیاتی بحران کے بعد صرف 2009میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں پانچ ہزار کا اضافہ ہوا۔ یہ تحقیق بھی سرمایہ داری کے بحران اور اس کے نتیجے میں خود کشیوں کو مالی مسائل اور بیروزگاری کے علاوہ جذباتی، عملی اور سماجی امداد کی عدم فراہمی کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ محدود جذباتی اور سماجی عمل کا تعلق بھی انسان کی بقا اور اس کی ان حسیاتی خواہشات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، جس نظام میں یہ تشکیل پاتی ہیں اور ان خواہشات کی عدم تکمیل سے بلآخر انسان اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے۔ ''دی گارڈین'' کے تجزیہ نگار جین پاول نے بھی اپنی تحقیق سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خود کشی کی شرح میں اضافے کی وجہ غربت و افلاس اور ذہنی تنائو ہے اور حالیہ معاشی بحران سے اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکا میں2007سے ہر برس خود کشی کا ارتکاب کرنے والوں میں پندرہ سو لوگوں کا اضافہ ہوا ہے۔
پرانی یورپی یونین میں صرف آسٹریا کے علاوہ 2008 کے بعد اضافے کی شرح سات فیصد رہی ہے۔ آسٹریا میں خود کشی میں کمی کی وجہ یہ تھی کہ یہاں حکومت کی مالی معاونت میں کمی نہیں کی گئی۔ ذہنی تنائو کا شکار لوگوں کو سماجی تعاون سے لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے، جس سے ان کی ترجیحات کی سمت تبدیل ہو جاتی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ایرون ریوز نے ''ترقی یافتہ'' ممالک میں خود کشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر تحقیق کرتے ہوئے حکومتی پالیسی سازوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ عام شہریوں کی خاطر ایسی معاشی پالیسیاں متعارف کرائیں کہ جس سے مالیاتی بحران کے نتیجے میں جنم لینے والے خود کشی کے رجحان کو کم کیا جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ غیر انسانی نظام انھیں اس قسم کی کوئی پالیسی بنانے دے گا؟ فی الوقت تو یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ یہ بتاتی ہے جس طریقے سے یہ عمل آرا ہوتا ہے اس میں ہر پالیسی کا تعلق سرمایہ داروں کے منافعے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔
حکومتیں کوئی ایسی پالیسی نہیں بناتیں کہ جس میں صرف اور صرف عوام کی فلاح کو مدِ نظر رکھا جائے۔ وہ لوگ جو ذرایع پیداوار پر قابض ہیں ان کا واحد مقصد اس قبضے کو نہ صرف برقرار رکھنا، بلکہ اسے تقویت دینا ہوتا ہے۔ جدلیاتی مادیت کی رو سے حقیقی لازمیت طبقاتی مفادات سے بالا تر ہوتی ہے، اس میں حالات کا تجزیہ سائنسی انداز میں کیا جاتا ہے، جب کہ بالائی طبقات کے نزدیک یہ مفہوم صرف سرمائے میں اضافے کی لازمیت سے جڑا ہوتا ہے۔ باقی سب کچھ اس کے تحفظ اور دوام کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس نظام کا ارتقا ہو گا تو اس سے ہم آہنگ ہونے والی پالیسیاں بھی بنیں گی۔ سرمایہ داری نظام میں ترقی کا مفہوم بالائی طبقے کے مفادات کا استحکام ہے، باقی سب ترجیحات اسی کے تابع ہوتی ہیں۔ عام لوگوں کی بقا کا تقاضا ہے کہ وہ اس غیر انسانی نظام کو تقویت دیتے رہیں بصورتِ دیگر سماجی و معاشی عدم تعاون انھیں شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کرتا ہوا بلاخر موت کی آغوش میں لے جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے خلاف فیصلہ کن جدو جہد کرتے ہوئے اس کے انہدام کو عمل میں لایا جائے، اسی میں انسانیت کی بقا کا راز مضمر ہے۔