ناقص اقتصادی فیصلے اور پالیسیاں

یہاں فیصلے کرنے والے منصوبہ سازوں کی اہلیت و قابلیت کا کوئی معیار نہیں ہے


Dr Mansoor Norani December 12, 2022
[email protected]

اس ملک کو آگے نہ بڑھنے دینے اور پسماندہ رکھنے میں جہاں کچھ طاقتور اداروں کا غیر ضروری عمل دخل رہا ہے وہاں برسر اقتدار رہنے والوں کے ناقص اقتصادی فیصلے اور پالیسیاں بھی ایک بڑی وجہ رہی ہیں۔ ایک طبقہ کسی منصوبے کو ملک اور قوم کے لیے انتہائی مفید مند سمجھتا ہے تو دوسرا اسے فضول اور ضرر رساں گردانتا رہتا ہے۔

میاں نوازشریف نے جب 1990 میں بحیثیت وزیر اعظم پہلی بار اقتدار سنبھالا تو اپنے وژن اور سوچ کے مطابق موٹروے کو اس ملک کے روشن فیوچر کے لیے بہت ضروری تصورکیا اور فوری طور پر اس پر کام بھی شروع کردیا۔

اس وقت اُن کے سیاسی مخالفوں نے اس منصوبے کو غیر مناسب اور فضول خرچی قرار دیکر اس کی بھرپور مخالفت شروع کر دی۔ انھیں اپنا یہ منصوبہ مکمل کرنے سے پہلے ہی قبل از وقت اقتدار سے معزول کردیا گیا اور یہ منصوبہ کئی سالوں کے لیے کٹھائی میں پڑگیا۔

وہ جب دوبارہ 1997 میں برسر اقتدار آئے تو پھر وہ اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچا سکے ، یوں تین سالوں میں مکمل ہونے والا یہ منصوبہ آٹھ سالوں میں جا کر مکمل ہو پایا۔ اس طرح اس پر خرچ ہونے والی لاگت بھی یقینا بڑھ گئی اور قوم آج اس نتیجے پر پہنچ پائی کہ یہ منصوبہ کوئی غیر ضروری اور فضول خرچ ہرگز نہیں تھا۔

اس موٹر وے نے ثابت کردیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کی موٹر ویز ترقی و خوشحالی حاصل کرنے کی ایک بڑی وجہ ہوا کرتی ہیں۔ ہماری قوم نے بھی بعد ازاں یہ تسلیم کر لیا کہ ہاں یہ کوئی فضول اور بے مقصد منصوبہ نہیں تھا بلکہ اس قسم کی راہداریوں کی موجودہ دنیا میں بہت ضرورت ہوا کرتی ہے۔

یہ منصوبہ عوامی حمایت اور اُن کے ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے بنایا گیا کوئی جز وقتی منصوبہ نہیں تھا بلکہ قوم کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک طویل مدتی دیرپا منصوبہ تھا، جس طرح ہم آج سی پیک کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہیں۔

اسی طرح موٹر وے کا یہ منصوبہ بھی روشن پاکستان کی بنیاد رکھنے میں سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس پر سفر کرنے والے اس کی اہمیت و افادیت کے نہ صرف قائل ہوتے ہیں بلکہ اس کی خوبصورتی اور پائیداری کے بھی معترف ہوتے ہیں۔

سینڈک اور ریکوڈک کے خزانے اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازنے میں کوئی کمی اور کسر نہیں چھوڑی۔ بس بات ہماری اہلیت اور قابلیت کی ہے کہ ہم اپنے رب کی ان کرم نوازیوں کا فائدہ کس طرح اٹھا پاتے ہیں۔

گندم ، چاول کپاس ، گنا اور نجانے ہر قسم کے پھلوں اور سبزیوں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں خود کفیل بنایا ہوا ہے مگر ہم پھر بھی ان سے مکمل طور پر افادہ نہیں کر پا رہے ہیں ۔ سوئی کے مقام پر نکلنے والی گیس سے ہم کئی سالوں تو تک اپنے گھروں کے چولہے جلاتے رہے۔

ان چالیس پچاس سالوں میں کئی حکمراں آئے مگر کسی نے اس گیس کا صحیح استعمال ہمیں بتایا ہی نہیں۔ پرویز مشرف نو سال تک ہمیں اس گیس سے گاڑیاں چلانے پر راغب کرتے رہے۔ سی این جی بنا کر ہم اس زبردست نعمت کو دھوئیں میں اُڑا کر ضایع کرتے رہے۔

اس وقت ہمیں کہا گیا کہ چونکہ پٹرول امپورٹ کرنے میں ملک کا زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے تو کیوں نہ اس قدرتی گیس کو استعمال کر کے ہم یہ زرمبادلہ بچا لیا کریں۔

اس مقصد سے بڑی تعداد میں سی این جی کٹس امپورٹ کی گئیں اور جگہ جگہ اسے فٹ کرنے کی سینٹرز کھولے گئے اور ساتھ ہی ساتھ ملک بھر میں سی این جی اسٹیشن بھی تعمیر کیے گئے اور جب ساری گیس گاڑیوں میں استعمال کر کے ختم ہوگئی تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ ایک بہت ہی ناقص اور نقصان دہ فیصلہ تھا۔ آج ہم گیس کی قلت کو رو رہے ہیں اور مہنگے داموں ایل این جی امپورٹ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

اسی طرح سابقہ عمران خان دور میں چینی ایکسپورٹ کر کے اپنے یہاں پلاننگ کے تحت شدید قلت پیدا کی گئی اور پھر اس کے دام بڑھائے گئے اور پھر باہر سے مہنگے دام امپورٹ کر کے قوم کو بھی مہنگے داموں و فراہم کی گئی۔ اس مذموم اور گھناؤنے کھیل میں قوم کا کتنا نقصان ہوگیا اس کی سزا نہ کسی کودی گئی اور نہ کوئی مجرم قرار پایا۔ آج ایک بار پھر یہ کھیل رچایا جا رہا ہے اور شوگر مافیا نے اضافی شوگر کا بہانہ بنا کر اُسے ایکسپورٹ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

کاشتکاروں کی فصل کو بچانے کے لیے حکومت شوگر ملز مالکان کے مطالبوں کے آگے سرینڈر کرچکی ہے۔ ہماری یہ شوگر مافیا ہر دور میں اپنے کام کر جاتی ہے اور کبھی بھی نقصان میں نہیں رہتی۔ ایک لاکھ ٹن شوگر ایکسپورٹ کر کے چینی کی قلت کا مصنوعی بحران پیدا کیا جائے گا اور اس طرح اس کے دام ایک بار پھر بڑھائے جائیں گے۔

ملک میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے سولر سسٹم سے بجلی پیدا کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یہ سولر سسٹم اب گھروں میں بھی لگایا جا رہا ہے۔ اسے امپورٹ کرنے میں ہمیں پہلے اپنا زرمبادلہ خرچ کرنا ہوگا جس کی آج بہت شدید کمی ہے۔

ملکی خزانہ دو ماہ کے اخراجات کے بھی قابل نہیں رہا ایسے میں بھلا سولر سسٹم امپورٹ کرنے کے لیے ہمارے پاس پیسہ کہاں سے آئے گا اور اب تک جن گھروں میں یہ سسٹم لگایا گیا ہے وہ کہاں تک کامیاب اور فائدہ مند ثابت ہو پایا ہے اس کا حساب کتاب تو اس وقت پتا چلے گا جب اس پر لگائی جانے والی لاگت واپس وصول ہوجائے گی۔

یہ سی این جی کٹس کی طرح ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر ہمارا زر مبادلہ تو خرچ ہوجائے گا لیکن قوم کو اس کا فائدہ نصیب نہیں ہوگا۔ الٹا اس سسٹم کی مینٹیننس کے لیے ہر گھرانے کو اپنی جیب سے ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑ جائیں گے۔

دس پندرہ سالوں بعد پھر ہمیں کوئی یہ بتا رہا ہوگا کہ یہ دیگر ناقص منصوبوں کی طرح ایک ضرر رساں منصوبہ تھا جس سے تھرمل بجلی کی کوئی خاطر خواہ بچت تو نہ ہوسکی الٹا بھاری زر مبادلہ ضرور خرچ ہوگیا۔

یہاں فیصلے کرنے والے منصوبہ سازوں کی اہلیت و قابلیت کا کوئی معیار نہیں ہے۔ یہاں فیصلے کرنے والے بہت سے لوگ صرف زبانی و کلامی اپنا منصوبہ سامنے رکھ دیتے ہیں۔

اس پر کوئی تحقیق یا ہوم ورک بھی نہیں کرتے ۔ اُن کی نظر میں جو منصوبہ اچھا نظر آتا ہے وہ اُسے نافذ کرنے کا حکم صادر فرما دیتے ہیں۔ مرغیوں اور بھینسوں کے کٹوں سے ملک کی تقدیر بدلنے کی باتیں بھی ہم نے بہت سنی تھیں۔

350 چھوٹے ڈیمز اور لنگر خانوں کے عظیم الشان منصوبے بھی بہت تشکیل دیے گئے مگر کیا ان منصوبوں سے قوم ایک خوشحال قوم کا درجہ حاصل کر پائی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے فضول منصوبہ سازوں کو اپنی بات پر اعتماد بھی بہت ہوتا ہے کہ وہ جب اسے عوام کے سامنے رکھتے ہیں تو اتنے کانفیڈنس کے ساتھ رکھتے ہیں کہ عوام بھی اُن کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔

ہم کسی ایک حکمراں کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ستر پچھتر سالوں میں ایسے بہت سے حکمراں آئے اور چلے بھی گئے جنھوں نے نہ صرف اپنا وقت ضایع کیا بلکہ قوم کے کئی سنہری سال بھی برباد کردیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔