مختلف
سمجھ میں نہیں آتا کہ طالبان کی جس موجودہ حکومت کو اقتدارمیں لانے کے لیے پاکستان کو طرح طرح کی تنقید سہنا پڑی ہے
میں اپنے اس کالم ''چشمِ تماشا'' میں احباب اور قارئین کے اصرار کے باوجود بہت ہی کم کسی سیاسی موضوع پر بات کرتا ہوں اور اس ضمن میں اخباری شہ سرخیوں کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتا کہ سیاسی خبر چاہے ملکی ہو یا بین الاقوامی اس کا اصل مطلب اس کے مضمون سے مختلف ہوتا ہے جو زور آور ہوتے ہیں۔
وہ اس منافقت یا غلط بیانی کی تردید یا وضاحت کرنا بھی پسند نہیں کرتے کہ اُن کے نزدیک یہ اُن کا طبقاتی حق ہے اور کمزور یا تنگ دست اقوام نہ صرف اُن کے اس حق کو سرجھکا کر تسلیم کرلیتی ہیں بلکہ جہاں بس چلے وہاں خود بھی ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس ضمن میں الفاظ کو جس بے دردی سے توڑا مروڑا جاتا ہے وہ اپنی جگہ پر ایک نشانِ عبرت ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد کمیونسٹ دنیا اور آزاد تجارت کے دعویدار ملک ایک دوسرے کے بارے میں ایسے بیانات جاری کرتے اور پھر اُن سے مکر نے کی تاویلیں گھڑتے تھے جیسے آج کل چین اور امریکا کی حکومتیں کرتی ہیں۔
دوسری طرف ہم جیسے یعنی تیسری دنیا کے ممالک ہیں کہ صبح ایک بڑھک لگاتے ہیں اور شام تک کوئی تند جواب آنے پر اُس کی توجہیات شروع کردیتے ہیں، یہ تماشا اب اتنا عام اور مسلسل ہوچکا ہے کہ نہ کوئی اس پر شرمندہ ہوتا ہے اور نہ کسی کو حیرت ہوتی ہے ۔
اجمال اس تفصیل کا یہ ہے کہ کل افغانستان کی طرف سے بلا اشتعال اور اچانک چمن کے شہری علاقوں پر بھاری اسلحے سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سات بے گناہ شہری جاں بحق اور بیس کے قریب زخمی ہوگئے۔
اس سے قطع نظر کہ افغانستان وہ واحد ملک ہے جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی شمولیت پر مخالفت میں ووٹ ڈالا تھا، ان پچھتر برسوں میں وہاں کی حکومتوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ تبدیلیوں ہی کی زد میں رہے ہیں۔
تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے صرف گزشتہ ایک ڈیڑھ برس کے باہمی تعلقات پر ہی ایک نظر ڈالیے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ طالبان کی جس موجودہ حکومت کو اقتدارمیں لانے کے لیے پاکستان کو طرح طرح کی تنقید سہنا پڑی ہے۔
وہ ہماری دوست ہے کہ دشمن۔ اُن کی اس چیرہ دوستی سے زیادہ رنج مجھے اس بات پر ہوا کہ حکومت پاکستان نے افغان حکو مت کے اس مؤقف کو تسلیم کرلیا ہے کہ یہ سب کچھ ایک غلطی کی وجہ سے ہوا اورچمن کا بارڈر دوبارہ سے کھول دیا گیا ہے ۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ سات مرنے اور بیس زخمی ہونے والے پاکستانی شہری کیا مکھیاں اور مچھر تھے جن کے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو کچھ فرق ہی نہیں پڑتا۔ ایکسپریس اخبار کی اس ضمن میں شہ سرخی اور ضمنی سرخیاںدیکھیئے تاکہ آپ کو میری ا س بات کی سنگینی کا اندازہ ہوسکے۔
''بلا اشتعال گولہ باری پر افغانستان نے معافی مانگ لی، چمن بارڈر کھول دیا گیا۔ TTPسے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے۔ وزیردفاع''۔
''افغانستان نے غلطی تسلیم کی کہ ہماری فوجوں نے افغان چوکیوں پر حملہ کیا، 8-9فوجی مارے گئے، وہاں پر عدم استحکام کے اثرات ہماری طرف آتے ہیں۔ خواجہ آصف''
اب ان دونوں سرخیوں میں ہماری طرف کے بے گناہ شہریوں کے ذکر کے بجائے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم نے بھی اُن کے 8-9فوجی مارے تھے اور یہ کہ معافی مانگ لینے کے تاریخ ساز واقعے کی وجہ سے اب اس معاملے کو ختم کر دیا گیا ہے !
سیاستدانوں کے مختلف واقعات پر بیانات ، فوری ردِّعمل کے بعد انتہائی شرمناک ، بے حسی ا ور اپنے عوام کی زندگیوں کے سودے کو لفظوں کے اُلٹ پھیر میں اُلجھانا اور ایک زندہ حقیقت میں ابہام کے پہلو نکال کر اُسے ایک مختلف رنگ دے دینا ،اگر سیاست ہے تو کیوں اس موضوع پر لکھ کر اپنے قلم کو داغدار اور دلوںکو سوگوار کیا جائے، سو اس تکلیف دہ ذکر سے آنکھیںچراتے ہوئے آیئے اس ''مختلف'' کی وضاحت کے لیے ایک بار پھر شعر کی پناہ لیتے ہیں۔
منزل پہ کر رہا ہے وہ اعلان مختلف
ہم سے ہوئے تھے وعدہ و پیمان مختلف
اپنی طرح کی ایک ہے انسان بھی کتاب
اندر لکھا کچھ ا ور ہے عنوان مختلف
دنیا کو دیکھتے نہیں دنیا کی آنکھ سے
ہیں اہلِ دل کے نفع و نقصان مختلف
آغاز سب کا ایک ہے انجام بھی ہے ایک
پھر کیوں ہیں ایک دُوجے سے انسان مختلف
کھلتا نہیں کہ کون ہے منزل کا رہ نما
ہر راستے میں بکھرے ہیں امکان مختلف
تو کیوں نہ پھر یہ زخمِ جگر پھیلتا رہے
ہم کر رہے ہیں درد کا درمان مختلف
جنسِ وفا کو لے لے کہاں آگئے ہو تم
اب ہو چکی ہے دنیا میری جان مختلف