بد تہذیبی اور کم فہمی کا طوفان
پی ٹی آئی نے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کر دی ہے جو عمران خان کے سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھتے ہیں
گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں کچھ بدلا ہو یا نہ بدلا ہو لیکن پاکستانی سیاست اور معاشرت میں بہت سی منفی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی اور بری تبدیلی اس ملک کی نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی ہے۔
ہم کئی کالموں میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت شبانہ و روز محنت کے نتیجے میں میرے ملک کے پڑھے لکھے اور بظاہر مہذب نظر آنے والے نوجوانوں کا ایک طبقہ بدزبانی، بد تمیزی اور بدلحاظی میں تمام حدیں عبور کر چکاہے۔
ویسے تو ہر سیاسی پارٹی نے اپنے اپنے انداز میں نوجوانوں کو اخلاقی ومعاشرتی اقدارسے دور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پی ٹی آئی نے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کر دی ہے جو عمران خان کے سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھتے ہیں۔
ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ حد سے گزر جاتے ہیں، مخالفین سے گالم گلوچ کرنا،ان پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کرنا، مخالفین کی کردارکشی ان کی فطرت ثانیا بن چکی ہے۔اب یہ کلچر معاشرے میں بھی سرایت کررہا ہے، بڑے چھوٹے، اپنے پرائے، دوست رشتے داروں کا بھی لحاظ نہیں کیا جارہا ہے۔
میں نے ایسے ایسے نوجوان دیکھے ہیں جو اپنے ماں باپ کے سامنے ایسے کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے وہ ان کے بدترین دشمن ہوں۔
ایسی نسل سے خیر کی اور بھلائی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس ملک کی یوتھ کی اخلاقیات کو ایک سازش کے تحت برباد کیا جارہا ہے، خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں طلباء کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔
اب تو انگریزی میڈیم کے فیشن ایبل طبقے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاںبدتمیزی کے طوفان میں شامل ہوگئے ہیں۔یہ طبقہ عمران خان کی شخصیت سے متاثر ہوکر سیاست میں آیا اور اب بربادی کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔
گزشتہ دنوں پی ڈی ایم سربراہ اور جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے ایک جلسہ میں خطاب کیا،اس خطاب کے چند جملوں کے ایک وڈیو کلپ کو لے کر سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا حالانکہ مولانا اپنے خطاب میں اور بہت سے ایشوز پر بات کی ہے۔
خطاب کے دوران ہی انھوں نے دو جملے کہے اور انھی جملوں پر مشتمل وڈیو کلپ کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا، عوامی جلسوں میں مقررین بہت ساری باتیں کرتے ہیں،کچھ باتیں ملک کی معیشت، سیاست اور خارجہ پالیسی پر ہوتی ہیں اور کچھ باتوں کا مقصد معاشرتی رویے اور برائیوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔
اس کا مقصدکسی طبقے ، گروہ یا کمیونٹی کی توہین کرنا نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں پروان چڑھتے ایسے رویوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے، جو ہمارے دین، معاشرتی اقدار اور تہذیب کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، بے حیائی اور بداخلاقی پاکستان کے معاشرتی اقدار اور ہمارے دین کی تعلمیات کے خلاف ہیں۔ پاکستان کا مذہبی طبقہ ہی اس کے خلاف نہیں ہے بلکہ روشن خیال اور ماڈریٹ طبقہ بھی بے حیائی ، بداخلاقی اور گالم گلوچ کے خلاف ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے جو باتیں کی ہیں، انھیں لے کر جس انداز میں ان پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے، ان کی بھی تحسین نہیں کی جاسکتی ہے۔
سچی بات ہے کہ میں نے سوشل میڈیا پر ایسی ایسی پوسٹ دیکھی ہیں کہ شرم سے جھک جاتا ہے بلکہ اپنی نوجوان نسل کے مستقبل کا سوچ کر خوف آتا ہے ۔
ایسی بے حیائی کی باتیں ایک مسلمان ملک میں سیاسی جماعتوں کے ہمدرد یا تنخواہ دار لوگ سوشل میڈیا پر دیدہ دلیری سے پوسٹس شیئر کر رہے ہیں جن پر انھیں سزا ملنی چاہیے۔
مگر مجال ہو کہ عمران خان یا کسی دوسرے سیاسی لیڈر نے اس خطرناک اور تباہ کن رجحان پر توجہ دی ہو یا بے حیائی پھیلانے والوں کی مذمت کی ہو۔ ی
وٹیوبرز اور سوشل میڈیائی جھتوں نے اپنے اپنے ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے معاشرتی اقدار کو تباہ کر دیا ہے اور بے حیائی کو پرموٹ کیا ہے۔
میرا ذاتی موقف ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کی تھی مگر ان کے اس بیان پر سوشل میڈیا نے چائے کی پیالی میں جو طوفان اٹھایا، اللہ کی پناہ۔ اس طوفان کو بڑھاوا دینے میں جہاں پی ٹی آئی کے یہ بدلحاظ اور بد اخلاق بریگیڈ کے ارکان پیش پیش تھے وہاں دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے کچھ احباب بھی شامل ہوگئے۔
یہ احباب سادہ لوحی کی وجہ سے جذبات کی رو میں بہہ گئے لیکن ایک دو ایسے بھی ہیں جو مولانا پر الزام تراشی اور تنقید کرکے کسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ایک یوٹوبر نے حقائق جانے بغیر مولانا پر الزامات کی بوچھاڑ کردی لیکن موصوف کے پاس ثبوت کوئی نہیں تھا' ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کسی کے پاس مولانا کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو اسے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے' ملک میں ایف آئی اے ، اینٹی کرپشن اور پولیس کے ادارے موجود ہیں، وہاں شکایت درج کرائی جاسکتی ہے۔
عدالتیں فعال ہیں، وہاں رٹ پیٹشن کی جاسکتی ہے، سیکرین پر آکر الزام لگاناکوئی صحافت ہے نہ وکالت ہے۔دل انتہائی افسردہ ہوا جب اس مہم میں میرے ایک قابل احترام مبلغ بھی کود پڑے۔
سورۃ العمران آیت نمبر چار میں اﷲ کریم ارشاد فرماتے ہیں کہ ''اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں''۔ ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے، حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ سے روایت ہے۔
رسولْ اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا ''اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، تم یا تو ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعا مانگو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہو گی''۔ لگتا ہے کسی کو قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عالیشان یاد نہیں؟ اگر یاد ہے تو ذرا بتائیں! ہم کہاں کھڑے ہیں؟
میں پی ٹی آئی کے ٹائیگرز سے کیا شکوہ کروں ، وہ تو اپنوں کی بھی عزت نہیں کرتے، میرا شکوہ تو ان سے ہے جو میرے اپنے ہیں۔
میں علمائے کرام' مشائخ اور دانشوروں سے اپیل کرتا ہوں، خدارا! آپ عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں کو اس بات پر قائل کرو کہ اس ملک میں بے حیائی و بے راہ روی کے پھیلاو کو روکیں،اپنے ایسے کارکنوں اور سپورٹرزسے لاتعلقی کا اعلان کریں جو لیڈروں سے محبت کی آڑ میں معاشرتی اور مذہبی اقدار کو تباہ کرنے کے درپے ہیں، اﷲ سے ڈرو، نئی نسل کی اچھی تربیت کرو، اسے راہ راست پر لاؤ۔
مولانا فضل الرحمان سیاست دان ہونے کے علاوہ ایک محقق اور عالم دیں بھی ہیں، لاکھوں علماء کے مرشد و مربی ہیں، مولانا فضل الرحمان اسلام کے مزاج، ماحول، اصلاحات اور طور طریقوں کو بھی جانتے ہیں، میدان سیاست کے اسرار و رموز سے بھی واقف ہیں۔ مولانا کی سیاسی جدوجہد اسلام اور جمہوریت کا امتزاج ہے۔
ان کے دعوے، ان کے دلائل، ان کی پرانی باتیں، ان کی نئی گفتگو میں صرف اور صرف اسلام اور اسلامی جمہوریت نظر آتی ہے۔ سچ کے بارے میں مشہور ضرب المثل ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔ کاش ان پر تنقید کے نشتر چلانے والے پہلے مولانا کی بات کی تحقیق کرتے ،پھر بولتے، بنا تحقیق تنقید کرنا انتہائی افسوسناک فعل ہے۔