پاکستان تاجکستان تعلقات کی نئی جہت
تاجکستان کے پاس قدرتی وسائل بہت ہیں اور پاکستان کے پاس گرم پانیوں تک پہنچنے کا راستہ ہے
پاکستان اور تاجکستان نے تجارت، معیشت، توانائی، زراعت، سیکیورٹی، صنعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے اور قریبی اور برادرانہ تعلقات کو مزید تقویت دینے پر اتفاق کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے تاجک صدر کے دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم بنانے اور تعاون کے نئے دور کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ تاجکستان کا وسط ایشیا میں ایک بہت ہی اہم مقام ہے اور یہ خطے کے لیے ''گیٹ وے'' ہے۔
پاکستان وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ریلوے، روڈ اور انرجی نیٹ ورک کے فروغ کا خواہاں ہے، کاسا 1000 منصوبے کی جلد تکمیل چاہتے ہیں جب کہ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے کہا کہ مختلف علاقائی اور عالمی معاملات پر دونوں ممالک کے خیالات یکساں ہیں، مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے خواہشمند ہیں، پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی سمیت دیگر چیلنجوں سے نمٹیں گے اور افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کام کریں گے۔
تاجکستان کے پاس قدرتی وسائل بہت ہیں اور پاکستان کے پاس گرم پانیوں تک پہنچنے کا راستہ ہے، یوں اس فیکٹر نے اِن دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے لیے ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند بنا دیا ہے، بلاشبہ تاجکستان کے ساتھ علاقائی رابطہ اور سی پیک کا منصوبہ پورے خطے کی معاشی حالت کو بدلنے میں مددگار ثابت ہوگا ۔
بلاشبہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخطوں سے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت ملے گی،کیونکہ دونوں دوست ممالک کے لیڈروںکی عالمی معیشت کو درپیش چیلنجوں اور اقتصادی ومعاشی صورتحال پر گہری نظر ہے ۔
جغرافیائی قربت کے اعتبار سے پاکستان اور تاجکستان کے مابین معیشت، صنعت، توانائی، دفاع اور دیگر شعبہ جات میں تعاون کے لیے بہت مواقع موجود ہیں۔
افغانستان کے بگڑتے حالات نے تاجکستان کو چین کے ذریعے وسطی ایشیاء میں تجارتی روٹ کے استعمال کے لیے بطور گیٹ وے کے ابھارا ہے-چین، پاکستان اور تاجکستان کے مابین سڑکوں اور ریل ٹریک کا ایسا جال ترتیب دیا جا رہا ہے جو خطے کے تمام ممالک کو ملا کراُن کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
وسطی ایشیائی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں تو پاکستان توانائی کے شعبے میں بحران کا سامنا کر رہا ہے-اس تناظر میں وسطیٰ ایشیائی ممالک خصوصاً تاجکستان کے ساتھ اچھے تعلقات اس بحران سے احسن انداز میں نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
پاکستان ان اوائل ممالک میں شامل ہے جنھوں نے تاجکستان کو سوویت یونین کے 1990 میں ٹوٹنے کے بعد بطور آزاد ملک تسلیم کیا۔ 1993میں تاجکستان اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات کا آغاز پاکستان میں تاجکستان کے سفارت خانے کے قیام سے ہوا، تقریبا تیس برس گزرنے کے باوجود یہ دوستی مزید مستحکم ہوئی ہے۔
تاجکستان جو وسیع پہاڑی سلاسل جیسی قدرتی نعمت سے مالا مال ہے اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پن بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے ،ایسے میں توانائی کے شعبہ میں تعاون اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔دونوں ممالک کے درمیان بجلی سپلائی کا ایک منصوبہ کاسا-1000 طے پایا ہے۔
اِس منصوبے کے تحت تاجکستان اور پاکستان کے درمیان بجلی کی ترسیل کے لیے لائن بچھانے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے،یہ منصوبہ پاکستان کو تقریباً 1300میگا واٹ بجلی مہیا کرے گا،اِسی منصوبے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کواِس شعبے میں ٹیکنیکل اور معاشی معاونت بھی فراہم کریں گے۔
اِس منصوبے نے دونوں ممالک کے لوگوں کو بہت سے مواقع فراہم کیے ہیں جن سے بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی زرعی پیدوار دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں ۔پاکستان میں پیدا ہونے والی کاٹن، آم، سنگترے، چاول اور دوسری زرعی اجناس پوری دنیا کے ساتھ ساتھ تاجکستان میں سپلائی کی جاتی ہیں،دونوں ممالک کے درمیان زرعی اجناس و ادویات کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی صنعت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اِس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر عائد ٹیکس کو کم ترین سطح پر لانے پر غور کیا گیا ، جس سے چھوٹے تاجروں کے لیے تجارت کے مواقع بڑھیں گے اور مجموعی تجارتی حجم بھی بڑھے گا۔
دونوں ممالک معدنیات کی وافر مقدار رکھتے ہیں ، جن کے لیے پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف معدنیات کی تجارت کے شعبے میں کافی دلچسپی ظاہر کر رہا ہے، کیونکہ دونوں ممالک کم خرچ طریقہ تجارت سے وافر مقدار میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
خطے میں اٹھنے والے نئے خطرات دونوں ممالک سے مزید تعاون کا تقاضا کرتے ہیں۔ خطے میں بڑھتے بھارتی مذموم مقاصد و مغربی اثر و رسوخ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے علاقائی دوستوں کے ساتھ مل کر ''بیلنس آف پاور''کی خارجہ پالیسی پر گامزن ہو۔
دونوں ممالک کو مل کر ہر شعبے میں ایک دوسرے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور خطے کی امن و ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بات اب حقیقت ہے کہ یہ دونو ں ممالک ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر عصر حاضر کے چیلنجز اور ان گنت مسائل کا خاتمہ نہیں کر سکتے،مگر اِس کے لیے دونوں ممالک کو اپنے اپنے مقامی ملکی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہو گا ۔
دوسری جانب وزیراعظم کی صدارت میںمعاشی ٹیم کا اجلاس ہوا، جس میں آئی ایم ایف کے نویں جائزے سے متعلق غور کیا گیا ۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ پاکستان کو سری لنکا بنانے کی خواہش رکھنے والوں کو ہمیشہ کی طرح مایوسی ہوگی ۔موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں صورتحال کو سنبھالادیااور ملک کو معاشی استحکام دیا ،گردشی قرض میں کمی اولین ترجیح ہے ۔
شہبازشریف اپنی معاشی ٹیم کے ساتھ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں لیکن زمینی حقائق کے مطابق ہمار ی ترقی کی سست رفتار شرح میں تیزی کا تعلق بلاشبہ اس بات سے ہے کہ ہم بار ،بار آئی ایم ایف سے رجوع کرتے رہے۔
اس کے فراہم کردہ قرضے معیشت کو عارضی سکون فراہم کرتے ہیں اور حکومتوں کو آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیجز سے آزاد ہونے کے لیے مشکل تنظیمی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تیز رفتار ترقی کی شرح کا توازن ادائیگی کے بحران پر خاتمے کی وجہ پاکستان کا برآمداتی ڈھانچہ ہے جس کی وجہ سے برآمدات کی شرح میں ملکی مجموعی پیداوار سے منسلک درآمدی اخراجات کی نسبت تسلسل کا فقدان ہے،اگر موجودہ حکومت صنعتوں کی بحالی چاہتی ہے تو ایسا صرف ذہانت سے ہی ممکن ہے۔
جنوبی کوریا کی مثال لی جائے تو جنوبی کوریا نے سب سے پہلے ایسے مخصوص صنعتی شعبوں کی نشاندہی کی جن میں جدت، بہتر تکنیکی صلاحتیوں اور برآمدات کی دوڑ میں تیزی لانے کی قابلیت تھی۔ یہ صرف ایک مخصوص صنعت نہیں تھی لیکن ایسے صنعتی شعبے جن کی حکومت نے سبسڈی کے ذریعے معاونت کی۔
اس وقت ٹیکسٹائل جیسی صنعتوں کی بجائے سوفٹ ویئر، الیکٹرانکس، قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں کو سبسڈی دیے جانے کی ضرورت ہے، اگر حکومت ٹیکنالوجی کے شعبے میں سبسڈی فراہم نہیں کر سکتی تو کم از کم نوجوان ٹیلنٹ اور فریش گریجوایٹس کو سبسڈائز تاخیری ادائیگی پر قرضوں کی فراہمی کر سکتی ہے تاکہ وہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
موجودہ اتحادی حکومت کو چھوٹی صنعتوں کو سبسڈی فراہم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کم از کم پاکستان میں اپنے چھوٹے حجم اور انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے یہ صنعتیں بڑی صنعتوں کی نسبت زیادہ جدت کی حامل ہوتی ہیں۔ اشتراکی اجناس جیسے دودھ سے تیار کردہ اضافی اقدار والی اجناس، ڈبہ بند گوشت، پھل اور سبزیاں کو بھی برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر انڈر انوائسنگ چل رہی ہے۔ ہمارے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں زیادہ اضافی قدریں شامل کی جائیں، ان شعبوں میں برآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آزادانہ تجارتی معاہدوں کی منسوخی کے بغیر متبادل درآمدات کی حکمت عملی ناکام رہے گی۔
ایک اور شعبہ جس سے ہماری کافی امیدیں وابستہ ہیں وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ اس میں ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ بھارت کی ٹیکنالوجی کمپنیز پاکستانی آئی ٹی ورکرز کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے کیونکہ بھارت میں آئی ٹی کا شعبہ میں بے ہنگم ترقی ہوئی جس کے نتیجے میں وہاں آئی ٹی ٹیکنالوجسٹ اور انجینئرز کافی مہنگے ہو گئے جب کہ پاکستان میں آئی ٹی انجینئرز اور گریجویٹس کے معاوضوں کے مقابلے نصف سے بھی کم ہیں۔
اگر ہم ایک جدید سول سروس تیار کرتے ہیں جو عالمی مارکیٹ کے تقاضوں کے عین مطابق اور شہروں کی صنعتی وتجارتی بنیاد رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو ، اور اسی طرح ہم مارکیٹ پر لاگو غیر ضروری پابندیاں ہٹا لیں ان کی نئے سرے سے تشکیل کریں تو ہم اپنی برآمدات اور صنعتوں کو فروغ دے سکتے ہیں جو نوجوانوں کے لیے روزگار کا باعث بنیں گے،اوریوں ہم 8 فیصد شرح ترقی کو یقینی بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ پیدا کر سکتے ہیں۔