پھدکنے والا پرندہ
بچاری کرینہ سیف روزانہ نئے نئے بیان دیتے دیتے تھک گئی ہے
نہ جانے کیوں آج کا دن کچھ مرجھایا ہوا سا لگ رہا تھا، بظاہر ہمیں کوئی تکلیف بھی نہ تھی، اقرباء میں کوئی فوت بھی نہیں ہوا تھا، ناشتہ بھی ٹھیک ٹھاک کر لیا تھا یعنی راوی چناب بلکہ دریائے کابل اور سوات بھی چین ہی چین لکھ رہے تھے۔
وفاقی حکومت کی خوش خبریاں اور کامیابیاں بھی برابر چل رہی تھیں اور صوبائی حکومت بھی صوبے کو گل وگلزار بنانے کی خوشخبریاں دے رہی تھیں لیکن پھر بھی کچھ بے چینی سی تھی، بے قراری سی تھی ،کوئی کمی تھی جو پکڑ میں نہیں آرہی تھی ،دوبارہ بلکہ سہ بارہ چار بارہ اخبار کو دیکھا، الٹا پڑھا، اندر کے صفحات میں بھی جھانکا، سارے دانا دانشور دنیاکی دانش بکھیر رہے تھے ،عالمی اور ملکی رہنماؤں کے زریں مشوروں کا سلسلہ بھی بد ستور جاری تھا تو پھر ایسا کیا تھا جو نہیں تھا اور ایسا کیا تھا جو تھا اور ہے ۔
تو پھر ؟ تو پھر؟۔۔آ ۔۔۔ارے ہاں ہاں ہاں معاونہ خصوصی برائے فلمی اطلاعات ''کرینہ سیف'' کا بیان اور تصویر نظر نہیں آرہی تھی۔
ایک مرتبہ پھر اخبار کھولا ،ٹٹولا ،اپنے اصل مقام ''سہ کالمی'' پر دیکھا ،دوکالمی مقامات بھی دیکھے ،سنگل کالم پر بھی نظر دوڑائی ،تصاویر بھی بار بار دیکھیں ، واقعی کہیں کوئی بیان یا تصویر نہیں تھی ۔۔مگر کیوں؟ یہ تو ایسا ہے کہ دن چڑھے اور سورج نہ نکلا ہو یا سورج نکل آیا ہو اور دن نہ چڑھا ہو۔کرینہ سیف علی خان جو کبھی کرینہ کپور ہوا کرتی تھی اور اس کی ساس شرمیلی ٹیگوری جو کبھی بہو تھی، وہ کرینہ سیف جو گزشتہ چھ سات مہینوں سے برابر طلوع ہورہی تھی ، آج آخر کیوں نہیں ہے؟
بات تحقیق طلب تھی، اس لیے تحقیق کا ٹٹو دوڑانا ضروری ہو گیا تھا لیکن ہمارا ٹٹوئے تحقیق اس سلسلے میں ہم سے زیادہ باخبر نکلا ۔ بولا ، مجھے سب پتہ ہے تو تحقیق کی کیاضرورت ؟ تفصیل چاہی کہ آخر یہ ماجرا کیاہے؟کرینہ سیف اور تصویر وبیان کا ناغہ ؟ کہیں خدا نخواستہ بچاری کی طبعیت تو ناساز نہیں ہوگئی یا سیف علی خان یا کرکٹر خاندان سے ان بن تو نہیں ہوگئی ۔
بولا ،ایسی کوئی بات نہیں ،البتہ یہ بات تھوڑی بہت سچ ہے کہ اس کی خاندان پٹوڈی سے ان بن تو نہیں لیکن یہ شکایت ضرور پیدا ہوئی ہے کہ وہ تو اس خاندان، خاص طور پر سیف علی خان اور شرمیلی ٹیگوری کو فالو کرتے کرتے اوبھ گئی ہے،جو ہرروز اپنا بیان بدلتے رہتے ہیں ،آج چلیں گے ،کل کال، پرسوں کچھ اور۔
بچاری کرینہ سیف روزانہ نئے نئے بیان دیتے دیتے تھک گئی ہے ۔ پروین شاکرکو تو اپنے قاتل کی ''ذہانت'' سے پریشانی تھی۔
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک طرز نئی قتل کی ایجاد کرے
لیکن کرینہ سیف اپنے قائد نہیں نہیں سر کے تاج کی ''حماقت'' سے پریشان ہے کہ ہر روزکوئی نیا شوشہ چھوڑتاہے ،اب تک کوئی دس بارہ بیان بدل چکا ہے اورکرینہ سیف نے ان سب بیانوں پر اپنے ''بیان'' بٹھائے ہیں لیکن آخر کب تک ۔
اپنے ''سیفو'' کی حماقت سے پریشان ہوں میں
روز ایک طرز نئی ''عقل'' کی ایجاد کرے
اس نئی صورت حال پر ہمیں ایک پرانی کہانی یاد آگئی۔سالم پاکستان کے پہلے اورآخری انتخابات تھے جو کسی جمہوری کے بجائے ایک فوجی یحیٰی خان کروا رہا تھا ۔ نیشنل عوامی پارٹی بھی میدان میں تھی اور اس وقت اس کاانتخابی نشان گھوڑا تھا، ہم اس پارٹی کے اخبار شہبازسے منسلک تھے۔
مولانا اسماعیل ذبیح پشاورکی ایک اہم شخصیت تھے، وہ بھی نیپ میں شامل ہوچکے تھے، الم آدمی تھے، اس لیے انھوں نے انتخابی نشان گھوڑے پر ایک عالمانہ اور محققانہ مضمون لکھا تھا جس میں گھوڑے کی اہمیت، فضیلت اور تاریخی کردار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
یہاں تک کہ گھوڑے کی طاقت کا اندازہ قیامت کے دن لگ جائے گا کہ آندھیوں، طوفان اور تباہ کاریوں سے سب کچھ اڑ جائے گا لیکن ایک گھوڑا ایسا جاندار ہوگا جو اپنے پیروں پر مضبوطی سے جم کر کھڑا ہو گا یہاں تک کہ کاگوشت پوست بھی اڑا جائے گا لیکن ڈھانچہ بدستوراپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا رہے گا ۔
ہم نے مضمون دے دیا ،اگلے دن مضمون بھی اندر کے صفحات میں چھپ گیا لیکن باہرکے صفحات میں یہ بڑی خبر تھی کہ نیشنل عوامی پارٹی نے اپنا انتخابی نشان گھوڑا بدل کر جھونپڑی کردیا ہے کیوں کہ مشرقی پاکستان کے لوگ گھوڑے سے واقف نہیں ہیں ۔
کرینہ سیف بھی حق بجانب ہے، آخر کوئی کب تک ڈال ڈال بات بات پھدکنے والے ''پرندے''کا ساتھ دے سکتا ہے ،اتنا جھوٹ آخر کہاں سے لائے گا ،پرندوں میں سب سے چھوٹا ایک پرندہ پشتو میں ''چتے'' کہلاتاہے، یہ اتنا چھوٹا ہوتاہے جیسے کسی مونگ پھلی کو پر لگے ہوئے ہوں۔
اس کے بارے میں مشہورہے کہ یہ جب دیوار پر چلتاہے تو نہایت احتیاط سے قدم رکھتاہے کہ کہیں دیوار اس کے وزن سے گرنہ پڑے اورشاخوں پر پھدکتا اس لیے ہے کہ اسے اپنے وزن سے شاخیں ٹوٹنے کاگمان ہوتاہے ۔