مسجد ملازمین کا دھیان کریں
کراچی کے بھائی کی بات سن کر میں پریشان ہو گیا
دو ہفتے پہلے کراچی سے ایک بھائی نے بہت آزردہ ہو کر بتایا کہ قریب کی مسجد کے خادم کا اسے فون آیا کہ اس کے ہاں تین دن پہلے بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ بچہ کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے اور بچے کی ماں کی طبیعت بھی خراب ہے۔
بھائی نے مسجد کے خادم کو کہا کہ بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ تو خادم نے کہا کہ میں بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا۔ بھائی نے اُسے قریب کے ایک کلینک کا بتایا کہ تم بچے اور بچے کی ماں کو وہاں لے جاؤ، میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں، وہ معائنہ کر لے گا اور تم سے کوئی معاوضہ نہیں لے گا۔
خادم نے ایسا ہی کیا۔دو گھنٹے بعد اس سے فون پر معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے دیکھ لیا ہے۔بچے کی ماں کے لیے تو کچھ ادویات تجویز کی ہیں لیکن کہا ہے کہ بچے کو شدید جانڈس ہے اس لیے بچے کو فوراً اسپتال داخل کروانے کی ضرورت ہے۔
خادم یہ بتاتے ہوئے فون پر زارو قطار رونا شروع ہو گیا اور کہنے لگا کہ میں یہ سارا کچھ کیسے کر سکتا ہوں۔ میری ماہانہ تنخواہ صرف چودہ ہزار روپے ہے۔
اس میں بیوی کی دوائیاں کیسے لوں۔ ابھی ایک سال پہلے شادی کی ہے۔کچھ تو محلے والوں نے مدد کی لیکن کچھ قرضہ لیا جو ابھی تک واجب الادا ہے، اوپر سے یہ مشکل آ گئی ہے۔بھائی نے مسجد کے خادم کو کہا کہ تم کوئی اور ملازمت یا کام کیوں نہیں کر لیتے۔کچھ بھی اور کر لو تو تمھیں چودہ ہزار روپے سے تو زیادہ ہی مل جائیں گے۔
مسجد کے خادم نے کہا کہ میں تو مدرسے سے پڑھ کر سیدھا اس مسجد میں آ گیا ہوں اور اب یہی میرا سب کچھ ہے۔بھائی نے بچے کو چلڈرن وارڈ میں داخل کروا دیا اور خادم کو کچھ دیتے ہوئے کہا کہ اسپتال کا جو بھی خرچہ آئے اسے بتا دے ،وہ ادا کر دے گا۔
کراچی کے بھائی کی بات سن کر میں پریشان ہو گیا۔ پہلے اس بات کی طرف کبھی دھیان نہیں گیا تھا۔ بس مسجد گئے۔نماز کی ادائیگی کی،کبھی کبھار مسجد میں رکھے ڈبے میں کچھ ڈال دیا۔ مسجد کی تزئین و آرائش کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں ، نمازیوں کی مدد سے مسجدیں بنتی بھی رہتی ہیں اور مسجد کے کام بھی ہوتے رہتے ہیں۔
سنگِ مرمر کے فرش لگتے رہتے ہیں۔لکڑی کا کام ہوتا رہتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ قالین بچھائے جاتے ہیں۔فانوس بھی لٹکائے جاتے ہیں اور اونچی سے اونچی آواز پیدا کرنے کے لیے صوتی نیٹ ورک لگایا جاتا ہے لیکن امام مسجد ،موذن اور مسجد کے خادم کے لیے معمولی رقم مختص ہوتی ہے۔ میں نے کسی امام مسجد کی تنخواہ تیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں دیکھی۔
مساجد میںسب سے اہم ایکٹوٹی تو نماز کی ادائیگی ہی ہے لیکن مسجدِ نبوی تو بے شمار سرگرمیوں کا مرکز تھی۔تمام اہم امور پر وہیں بات ہوتی تھی۔ وہیں پر مواخات قائم کی جاتی تھی۔وہی تعلیم و تربیت کا مرکز تھی اور وہی ٹرانزٹ کیمپ تھا۔
ہمیں اپنی مساجد کو عبادت گاہ کے ساتھ دارلمطالعہ یعنی لائبریری بھی بنانا چاہیے جہاں مسلم سوسائٹی کا ہر فرد عبادت کے ساتھ ساتھ کتابیں پڑھ سکے، سیکھ سکے اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کر سکے۔ مسجد کی کئی ایک کمیٹیاں ہونی چاہیئیں جو مختلف امور میں لوگوں کی رہنمائی اور مدد کر سکیں۔ ایک کمیٹی محلے کے یتیم اور مفلس بچوں کی کفالت کا بندوبست کرے۔
اسی طرح ایک کمیٹی بیواؤں کے معاملات کی دیکھ بھال کرے۔ دینی تعلیم کے ساتھ آس پاس کے گھروں سے اہلِ علم اپنا کچھ وقت مسجد میں لوگوں کو اپنے اپنے شعبے کی تعلیم دیں۔تیز ترین کیمونیکیشن کے اس دور میں اس شعبے کے ماہرین مسجد میں ایسی سہولتیں بہم پہنچائیں جس سے دنیا کے ہر ملک سے کتابیں اور لیکچر ڈاؤن لوڈ کر کے مسجد کے نمازی مستفید ہوں۔
محلے کی چند اہلِ علم خواتین اپنا کچھ وقت مسجد کو دیں اور اپنی ساتھی خواتین خاص کر لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری اُٹھائیں تاکہ مسجد کے ذریعے علم و آگہی کا انقلاب آئے۔ مسجدِ نبوی نے عظیم ترین انقلاب برپا کیا تھا،ہم اسی ماڈل کو اپنا کر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
ہماری مساجد میں بھی ایک بیوروکریسی جنم لے چکی ہے۔مسجد کمیٹی اسی کی ایک شکل ہے۔وہ چند افراد جو مسجد کمیٹی کی انتظامیہ بن جاتے ہیں وہ مسجد کے پیش امام کو اپنے ساتھ ملا کر اجارہ داری حاصل کر لیتے ہیں اور کسی دوسرے کی ایک نہیں سنتے۔چونکہ ہماری مساجد کے پیش اماموں و خادموں کی تنخواہ بہت قلیل ہوتی ہے۔
اس لیے ایک دفعہ کسی مسجد میں جگہ بنا لینے کے بعد وہاں لمبا عرصہ قیام کے لیے واعظین مسجد بیوروکریسی کے اشاروں پر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔مساجد سے وابستہ یہ پیش امام اور خادم تکلیف برداشت کرتے ہیں،اپنی آمدنی سے علاج نہیں کروا سکتے۔ان کے گھر کی خواتین بہت مشکل زندگی گزارتی ہیں۔
یہ طبقہ اپنے بوڑھے والدین کا علاج معالجہ بھی نہیں کرا سکتا۔ان کے لیے لمبی چھٹی لے کر جانا ممکن نہیں ہوتا۔ہمیں مسجد سے وابستہ ان افراد کو مناسب معاوضہ دینے کی طرف دھیان دینا چاہیے تاکہ وہ ایک باوقار زندگی گزار سکیں اور معاشرے کی عمدہ تشکیل پر توجہ دے سکیں۔اگر ہم کسی فنکشن پر لاکھوں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو مسجد کے پیش امام و خادم کا تو زیادہ حق بنتا ہے۔