قوم توجہ کی طلب گار ہے

صبح سے لے کر رات تک گھر بند ہوتا ہے اس کے باوجود ماہانہ بل 900 روپے آیا


م ش خ December 16, 2022
[email protected]

ہمارے حکمرانوں کو زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں، کیونکہ ہماری نادانی لوگوں کو بددعا کا موقع دیتی ہے۔

گیس کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک شیڈول اخبارات میں شایع ہوا ہے، جس کو ریسرچ کیے بغیر شایع کردیا گیا گزشتہ 12 سال سے گیس کی قلت کی خبریں اخبارات میں مسلسل شایع ہو رہی ہیں، اس دوران ملک میں جمہوری عمل جاری تھا اور جمہوری حکمران برسراقتدار رہے، لیکن وہ اس قلت کو دور کرنے کا خاطر خواہ انتظام نہ کرسکے۔

اس دوران کئی مرتبہ اخبارات میں یہ خبر آئی کہ فلاں مقام پر گیس کے نمودار ہونے کے بہترین آثار نظر آئے ہیں (یہ آخری خبر تھی جو اخبارات میں پرنٹ ہوئی) مگر کسی وزیر نے یا وزیر اعظم نے ٹیم تشکیل نہیں دی کہ اس پر مکمل کام کیا جائے اور گیس کی قلت کو ختم کیا جائے۔

ان سیاسی لوگوں سے یہ نہ ہو سکا ،ہاں جمہوریت کی بقا اور سلامتی کے لیے دن رات ایک کردیے مگر قوم کے لیے کچھ نہ کرسکے اس میں ہم اور سیاست دانوں دونوں قصور وار ہیں شہری حضرات تو ایک دفعہ ووٹ دیتے اگلی مرتبہ پھر وہ کسی کو بھی ووٹ نہیں دیتے اور خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں جب کہ دیہاتوں میں تعلیم کو ان سیاستدانوں نے عام ہونے نہیں دیا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ تعلیم سے محروم رہے ۔

بات یقینا آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی اور اگر دیہاتوں میں تعلیم کو رائج نہیں کیا گیا تو یقینا ابھی اپنے نہ حل ہونیوالے مسائل کے لیے 15 سال اور لڑنا ہے 15 سال اس لیے لکھا ہے کہ اب سوشل میڈیا نے سب کو جگا دیا ہے دیہات میں رہنے والا سائیکل پر سفر کرتے ہوئے نیٹ کا پیکیج کھول لیتا ہے اور ہر چیز پر اس کی گہری نگاہ ہوتی ہے سیاسی لوگ ابھی سمجھ نہیں رہے ہیں کہ انھیں قوم کے مسائل حل کرنے ہوں گے۔

اسی طرح وہ دن بھی دور نہیں جب سیاسی حضرات بھی مشکلات محسوس کریں گے لہٰذا گیس کے حوالے سے توجہ دی جائے ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ گیس کے ماہانہ بل اتنے زیادہ آتے ہیں کہ شریف شہری نوکریاں چھوڑ کر قطاروں میں گیس کے بل درست کرانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں (اس میں راقم شامل ہے۔

صبح سے لے کر رات تک گھر بند ہوتا ہے اس کے باوجود ماہانہ بل 900 روپے آیا) پھر ایک جاننے والے سے رابطہ کرکے اسے آفس روانہ کیا پھر بل درست ہوا گیس کے ایم ڈی اس پر خصوصی توجہ دیں اور علاقوں کا پتا نہیں حیدری کراچی آفس نے بلوں کو دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

اگر وہاں کوئی مسئلہ درپیش ہے تو ایم ڈی صاحب قوم کو اس تکلیف سے نجات دلائیں دوسری بات یہ کہ جب گیس کے اوقات مقرر کردیے گئے ہیں تو بلوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔ روایتی بل نہیں آنے چاہئیں جو میٹر کہہ رہا ہے اس کیمطابق بل ادا کروانے کی کوشش کی جائے۔

گیس کے اوقات بڑھائے جائیں صبح 9 بجے تک وقت مناسب نہیں جو خواتین سروس کرتی ہیں ان کے لیے بہت مسائل پیدا ہوں گے کاروباری حضرات کے لیے بھی مسائل ہوں گے کیوں کہ انھیں بھی روزگار پر جانا ہوگا۔

لہٰذا اس کے اوقات صبح 9 کے بجائے 10 بجے کیے جائیں اور دوسرے دوپہر کے اوقات 11 بجے سے لے کر ایک بجے تک کیے جائیں کیونکہ ایک بجے کے بعد طلبا گھر آتے ہیں اور بچوں کو آتے ہی کھانے کی ضرورت ہوتی ہے شام کے اوقات 6 بجے سے لے کر رات 10 بجے تک کیے جائیں جو خواتین جاب کرتی ہیں وہ مسائل کا شکار نہیں ہوں گی قوم کے بارے میں ہر فیصلہ سنجیدگی سے کرنے کی ضرورت ہے۔

یہی ہم سب کے لیے بہتر ہے فیصلے کرنیوالے تو مراعات یافتہ ہیں انھیں تو گیس کسی طرح مل جائے گی قوم کا سوچیں ۔ آج لوگ رزق کی اہمیت کو سمجھ نہیں رہے، بے شمار مخلوقات میں صرف انسان وہ مخلوق ہے جو پیسہ کماتی ہے مگر مزے کی بات دیکھیں کہ رب انسان کے علاوہ اس مخلوق کو بھی رزق دیتا ہے جو پیسہ نہیں کماتی اور رات کو اپنے گھونسلے میں پیٹ بھری زندگی گزارتے ہیں ہم بہت ناشکرے ہیں ۔

ایک سروے کیمطابق جو چینلز نے کیے ہیں ،ان کے حوالے سے ساڑھے سات لاکھ تعلیم یافتہ نوجوان ملک سے باہر چلے گئے ہیں یہ بتاتا چلوں کہ ان میں زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئر، ایم بی اے، ایم اے انگلش، ایم ایس اور دیگر اعلیٰ ڈگری یافتہ افراد شامل ہیں ان میں بیس ہزار پلمبر، الیکٹریشن، مستری ضرور شامل ہوں گے بقایا 6 لاکھ 80 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ۔

کیا اس ملک کو ان کی ضرورت نہیں تھی؟ روزگار کی طرف حکومت وقت کو خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ آج 7 لاکھ ہے 3 سال بعد یہ 20 لاکھ بھی ہو سکتے ہیں۔ سیاست دانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جب کوئی ڈاکٹر FCPSکی ڈگری اعلیٰ نمبروں سے پاس کرتا ہے تو اس جگہ سے جہاں سے انھوں نے FCPS کیا ہے انھیں سرکاری اسپتال میں بغیر تاخیر کے جاب دی جائے۔

RCS، MBBs، ARDMS، FCPS ڈاکٹر حضرات کو عمر کی پابندی ختم کی جائے تاکہ وہ قوم اور ملک کی خدمت کریں نہ کہ سعودی عرب، مسقط، بحرین، قطر، کینیڈا اور لندن میں جاب حاصل کرکے ملک چھوڑ کر چلے جائیں ۔باقی پھر تو ہمارے پاس کمپاؤنڈر بچتے ہیں جو کچھ نہیں کرسکتے، سوائے ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائی کو مریض کو دیں یا کچی آبادیوں میں ڈاکٹر بن کر بیٹھ جائیں۔

انجینئرز MS ، B.E پر توجہ دیں ملک کو ان کی ضرورت ہے MBA کرنیوالے نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں دیں تاکہ وہ ایک بہترین مارکیٹنگ کرکے گورنمنٹ اداروں کو کما کر لا کر دیں خاص طور پر ڈاکٹرز اور انجینئرز MS کی عمر کا تعین ختم کیا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی خدمت کریں حکومت اس پر خصوصی توجہ دے ہم تو بس ان خبروں کے عادی ہوگئے ہیں اور ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے کہ روس سستا پٹرول دے گا IMF اس دفعہ قرضے کی قسط وقت پر دے گا (قرضے کو بھی سیاسی طور پر فخریہ بیان کیا جاتا ہے کتنے دکھ کی بات ہے) کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کر رہے ہیں۔

ادھر یہ حال ہے کہ ٹماٹر 250 روپے پیاز 250 روپے ہر سبزی 200 روپے، ڈالر 230 کا جس غریب نے گاؤں میں رہ کر ووٹ دیا اور زمیندار کی نوکری کرتا ہے اور ووٹ بھی اسی کے کہنے پر دیتا ہے وہ ایم این اے، ایم پی اے مہنگائی کے حوالے سے آواز کیوں نہیں اٹھاتا اپوزیشن مہنگائی پر بات کرے تو سیاسی دشمن۔ ہونا تو یہ چاہیے حکومتی ارکان اس پر آواز اٹھائیں اور وزیر تعلیم سے وقت لے کر مہنگائی کے حوالے سے انھیں اعتماد میں لیں تاکہ خودساختہ مہنگائی کا خاتمہ ہوسکے۔

قائد اعظم جب بطور گورنر جنرل 1948 میں مقرر ہوئے ان کی تنخواہ 10416 روپے تھی چونکہ یہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی جس کی وجہ سے بھاری رقم ہونے سے ان پر انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس بھی لگا جو تقریباً 6 ہزار روپے سے زیادہ تھا اور ٹیکس کی کٹوتی کے بعد انھیں جو رقم ملتی تھی وہ 4304 روپے 10 آنے تھی۔

لہٰذا ہماری سیاسی قیادت کو قوم کی بہتری پر توجہ دینی ہوگی اور مہنگائی کا سدباب کرنا ہوگا اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے تو اگلا الیکشن اتحاد کے باوجود کوئی بھی جیت سکتا ہے ۔ سابقہ حکومت جس کے خلاف مہنگائی کے حوالے سے اپوزیشن نے ہڑتالیں کیں آج ان کے ہوتے ہوئے ماضی کی حکومت سے اب مہنگائی 70 فیصد زیادہ ہوئی ہے اور لوگ اب ماضی کی حکومت کو یاد کرتے ہیں لہٰذا برسر اقتدار لوگ اس پر خصوصی توجہ دیں۔

سیاست ایک تیر ہے اگر کمان سے نکل گیا تو پھر بات ختم ہو جائے گی۔ اب بھی وقت ہے حالات پر نظر ثانی کیجیے۔ اس سے پہلے کہ لوگ آپ کے لیے اپنے ''ووٹ'' پرنظرثانی کردیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔