ڈیپ اسٹیٹ اور ملک کا مستقبل

بنگلہ دیش ترقی کی طرف گامزن ہوا جب کہ پاکستان مسلسل بحرانوں کا شکار ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan December 17, 2022
[email protected]

بنگلہ دیش 16 دسمبر 1971کو وجود میں آیا۔ مشرقی پاکستان دنیا کے نقشہ سے غائب ہوا، سابق مشرقی پاکستان ایک پسماندہ علاقہ تھا۔ اب بنگلہ دیش کا شمار ایشیاء کی ابھرتی ہوئی صنعتوں میں ہوتا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام مشرقی بنگال کے دارالحکومت ڈھاکا میں عمل میں آیا تھا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے 22 اور 23 مارچ 1940کو لاہور میں منعقدہ تاسیسی اجلاس میں بنگال کے رہنما مولوی فضل الحق نے وہ قرارداد پیش کی تھی جس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس قرارداد میں تحریر کیا گیاتھا کہ پاکستان مسلم اکثریتی صوبوں کی کنفیڈریشن ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ بنگال کی اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کی حمایت میں قرارداد منظور کی تھی۔

آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجد چھوٹے صوبوں کے لیے تھی مگر ہندوستان کے بٹوارے کے بعد قائم ہونے والے ملک میں صورتحال تبدیل ہوگئی۔ 10 اگست 1947 کو کراچی میں آئین ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔

مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن جگن ناتھ منڈل کو اسمبلی کا چیئرمین مقرر کیا گیا مگر بنگالی اراکین نے مطالبہ کیا کہ انھیں بنگالی زبان میں قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جائے تو پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس مطالبہ کو اسمبلی کے قوانین کے متضاد قراردے کر مسترد کردیا اور بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے سے انکار کردیا۔

آئین ساز اسمبلی طویل عرصہ تک آئین بنانے میں کامیاب نہ ہوئی۔محققین کی تحقیق کے مطابق بہت سے اراکین اسمبلی صوبائی خودمختاری کے وسیع تصور کو عملی شکل دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

پہلے گورنر جنرل بیرسٹر محمد علی جناح کے انتقال کے بعد مشرقی بنگال کے رہنما خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے، وہ پہلے گورنر جنرل تھے جنھوں نے پارلیمانی حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ متحدہ بنگال کے پریمیئر حسین شہید سہروردی بیرسٹر محمد علی جناح سے مشاورت کے بعد کلکتہ میں فسادات کو روکنے کی کوششوں کی بناء پر ر ک گئے تھے۔

وہ پاکستان آگئے تو انھیں پاکستانی شہری ماننے سے حکومت وقت نے انکار کیا ۔ حسین شہید سہروردی کا شمار معروف وکلاء میں ہوتا تھا مگر حکومت کے دباؤ پر انھیں پریکٹس کرنے کا لائسنس دینے سے بڑی بار ایسوسی ایشن نے انکار کیا۔

بعد میں پنجاب کے چھوٹے شہر منٹگمری (موجودہ ساہیوال)کی بار ایسوسی ایشن نے انھیں وکالت کا لائسنس دیا، یوں حسین شہید سہروردی کی وکالت شروع ہوئی۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

خواجہ ناظم الدین کی حکومت کے خلاف مسلسل سازشیں ہوئیں اور ناظم الدین حکومت پر الزام لگایا گیا کہ ان کی حکومت مشرقی بنگال سے مغربی بنگال غلہ کی اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام رہی۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ میاں ممتاز دولتانہ نے ایک منصوبہ کے تحت پنجاب میں مذہبی فسادات کرائے تاکہ خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو کمزور کیا جائے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا۔

کچھ دنوں کے لیے ایک اور بنگالی بیوروکریٹ محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنایا گیا،جب محمد علی بوگرہ نے گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کے لیے قانون سازی کی کوشش کی تو ان کی حکومت کو پھر برطرف کیا گیا اور نئی حکومت میں محمد علی بوگرہ کو وزیر خارجہ کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔

گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین بہت مشکلات کے بعد سندھ چیف کورٹ میں اس فیصلہ کے خلاف عرضداشت داخل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا۔

گورنر جنرل نے اس وقت کی سپریم کورٹ جس کے سربراہ جسٹس منیر تھے نے نظریہ ضرورت کے تحت گورنر جنرل کے فیصلہ کی توثیق کردی۔

مشرقی بنگال کی اکثریت ختم کرنے کے لیے مغربی حصہ کے تین صوبوں سندھ، سرحد اور بلوچستان کو زبردستی ون یونٹ میں شامل کیا گیا۔ دونوں صوبوں میں برابری کی بنیاد پر مشرقی بنگال کی اکثریت کو ختم کیا گیا اور مشرقی بنگال کا نام مشرقی پاکستان رکھ دیا گیا۔

50ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول کمیونسٹ پارٹی، عوامی لیگ اور دیگر قوم پرست جماعتوں نے جگتو فرنٹ کے تحت انتخابات میں حصہ لیا۔

جگتو فرنٹ کے رہنماؤں نے مشرقی پاکستان کے حالات بہتر بنانے کے لیے 26 نکات پر مشتمل منشور تیار کیا۔ جگتو فرنٹ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ اے کے فضل الحق وزیر اعلیٰ بنے مگر کچھ عرصہ بعد ان کی حکومت کو ملک دشمن قرار دے کر توڑ دیا گیا اور گورنر راج نافذ کردیا گیا۔

1956 کے آئین میں پارلیمانی نظام تو قائم ہوا مگر صوبائی خودمختاری کو محدود کردیا گیا اور اسکندر مرزا صدر بن گئے۔ انھوں نے 1958 میں انتخابات نہ کرانے کے لیے مارشل لاء نافذ کیا کیونکہ اس بات کے قوی امکانات تھے کہ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کامیابی حاصل کرتی۔ اسکندر مرزا نے آئین ختم کر کے مارشل لاء نافذ کیا۔ جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔

ایوب خان نے اسکندر مرزا کو رات کی تاریکی میں گرفتار کرکے لندن جلاوطن کیا اور خود صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ جنرل ایوب خان نے 1962 میں صدارتی آئین بنایا جس میں تمام اختیارات کا محور صدر کی ذات تھی۔

جب بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تو مشرقی پاکستان کے عوام نے فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی۔ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔ مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کے جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت سے یقین ہوچلا تھا کہ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیں گی مگر حکومت نے انتخابات میں دھاندلی کی اور فاطمہ جناح کو شکست ہوئی۔

1965 کی جنگ کے نتائج سے بنگالی دانشوروں نے یہ نتیجہ نکالا کہ مغربی پاکستان سے، مشرقی پاکستان کا دفاع نہیں ہو سکتا مگر مشرقی پاکستان کی دولت سے اسلام آباد کو آباد کیا جارہا ہے۔ 60ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان جس میں رحمان سبحان، ڈاکٹر کمال حسین وغیرہ لندن اسکول آف اکنامکس اور دیگر نامور یونیورسٹیوں میں تحقیق میں مصروف تھے نے 6 نکات ترتیب دیے۔ جگتو فرنٹ کے 26 نکات کو ان 6 نکات میں سمو دیا گیا تھا۔

عوامی لیگ نے 6 نکات کو اپنا منشور بنایا۔ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے 6 نکات کی گہرائی کو محسوس نہ کیا۔ یہ 6 نکات مشرقی پاکستان کو استحصالی مافیا سے نجات دلانے کا راستہ بنتے۔ ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمن اور مشرقی پاکستان کے دیگر سیاسی رہنماؤں کو مسلسل حراست میں رکھا۔ شیخ مجیب الرحمن اگر تلہ سازش کیس میں دو سال سے جیل میں بند تھے۔

عوامی تحریک کے نتیجہ میں ایوب خان رخصت ہوئے اور جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا۔ 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، پنجاب اور سندھ سے پیپلز پارٹی، بلوچستان اور سرحد سے عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام اکثریت سے کامیاب ہوئی مگر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا۔

یوں مارچ سے دسمبر 1971 تک مشرقی پاکستان خانہ جنگی کا شکار رہا۔ بھارتی فوج کی مدد سے عوامی لیگ کی جدوجہد کامیاب ہوئی۔ 16 دسمبر 1971کو ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکا میں جنرل نیازی نے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

بنگلہ دیش ترقی کی طرف گامزن ہوا جب کہ پاکستان مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔ مشرقی پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کی پالیسیاں ناکام ہوئیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ڈیپ اسٹیٹ ملک کو چلاسکتی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔