فلم امراؤ جان کے شاعر شہریار سدا بہار
فلم امراؤ جان اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی جس میں ریکھا نے ہیروئن (امراؤ جان) کا کردار بڑی خوبصورتی سے ادا کیا تھا
فلمی دنیا میں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی ہدایت کار، فنکار، موسیقار، گلوکار اور شاعر کی کوئی فلم سپرہٹ ہوتی ہے تو پھر شہرت کی دیوی بھی اس کے قدموں میں آ کے بیٹھ جاتی ہے، مگر کبھی کبھی کسی کے ساتھ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔
اس کی ایک مثال بالی ووڈ کی سپرہٹ ترین فلم امراؤ جان کے شاعر شہریار کی ہے جس نے مذکورہ فلم میں جتنے گیت لکھے وہ سب سپرہٹ ہوئے ان گیتوں نے دھوم مچا دی تھی۔ مگر شاعر شہریار پھر بھی شہرت نہ پاسکے اب اسے مقدر کی بات کہہ سکتے ہیں یا پھر کسی شاعر کی بے قدری۔ شہریار ایک سیدھے سادے انسان تھے اور وہ دکھاوا، خوشامد اور عام انداز کے شاعر نہیں تھے۔
وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ تھے اور علمی شخصیت بھی تھے۔ میں یہاں فلم امراؤ جان کے چند گیتوں کا تذکرہ کر رہا ہوں جو شاعر شہریار کی کاوشوں کا نچوڑ تھے اور بہت ہی دلکش گیت تھے:
دل چیز کیا آپ میری جان لیجیے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجیے
٭
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے
٭
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
گلوکارہ آشا بھوسلے کی آواز نے ان گیتوں میں جادو سا بھر دیا تھا اور یہ ایک گیت طلعت عزیز کی آواز میں تھا جو دل کو بڑا چھوتا تھا:
زندگی جب بھی تری بزم میں لاتی ہے ہمیں
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
فلم امراؤ جان اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی جس میں ریکھا نے ہیروئن (امراؤ جان) کا کردار بڑی خوبصورتی سے ادا کیا تھا اور فلم کا ہیرو فاروق شیخ تھا جب کہ فلم کے ہدایت کار مظفر علی تھی۔ ریکھا کی زندگی کی یہ لازوال اور بے مثال فلم تھی۔
ایک فلمی تقریب میں اداکارہ ریکھا نے یہ بات برملا کہی تھی کہ فلم امراؤ جان میری زندگی کی وہ یادگار فلم ہے جس نے میری زندگی بدل دی تھی اور ریکھا بالی ووڈ کی سب سے زیادہ پسندیدہ اور مہنگی ترین ہیروئن بن گئی تھی اور فلم کی کامیابی میں جہاں ریکھا کی اداکاری کا فن تھا، جہاں مظفر علی کی ہدایت کاری کا ہنر تھا، جہاں موسیقار خیام کی دلوں کو چھو لینے والی دھنیں تھیں وہاں فلم کے شاعر شہریار نے بھی اپنے شاعرانہ کمال کا بڑا جادو جگایا تھا۔
مگر شہریار کی یہ بدقسمتی کہ اس کو پھر بھی فلمی دنیا میں وہ شہرت نصیب نہ ہو سکی جو ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری اور حسرت جے پوری کو حاصل ہوئی تھی۔ مشہور گیتوں کا خالق ہونے کے بعد بھی وہ گم نامی کے راستے کی دھول ہی بنا رہا۔ اب میں فلم امراؤ جان ادا کی کہانی کا پس منظر بھی بیان کرتا چلوں۔ سو سال پہلے ایک ناول لکھا گیا تھا جس کا عنوان تھا امراؤ جان ادا اور اس کے رائٹر تھے مرزا محمد ہادی رسوا۔ اس ناول کا پہلا ایڈیشن 1899 میں منظر عام پر آیا تھا۔
یہ لکھنو سے تعلق رکھنے والی ایک طوائف کی زندگی کا احاطہ کرتی تھی۔ وہ طوائف ایک باحیا، باحجاب اور ایک معصوم لڑکی تھی جو لکھنو شہر کے ایک متوسط علاقے فیض آباد میں رہتی تھی۔ اس لڑکی کو ایک بدنام شخص نے اپنی نگاہ میں رکھ لیا تھا اور پھر ایک دن اس کو اغوا کرلیا۔
کچھ دن اپنے پاس یرغمال بنا کے رکھا پھر سوچا اس خوبصورت لڑکی کی قیمت اچھی ملے گی۔ تو اس نے اس کے ساتھ تو کچھ نہ کیا مگر اسے لکھنو کے ایک بالا خانہ پر لے جا کر مہنگے داموں بیچ دیا تھا۔ اب وہ لڑکی پنجرے میں قید ایک پرندے کی مانند ہوگئی تھی، اس کی زندگی میں اندھیروں نے گھر کرلیا تھا۔
واپس اپنے گھر جانے کے وہ قابل نہ تھی پھر اس نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور اس نے بالاخانے کی زندگی کو خاموشی کے ساتھ اپنالیا۔ پھر اس کے چرچے سارے ہندوستان میں ہونے لگے۔ اس کی پائل کی جھنکار، اس کے گیتوں کی مہکار، اس کے رقص کی جادوگری نے اس دور کے بے شمار نواب زادوں اور رئیس زادوں کی نیندیں حرام کردی تھیں۔
لکھنو کی اس طوائف کے چرچے عام تھے، یہ کہانی ناول کے اعتبار سے اپنے انجام کو بڑے دردناک انجام میں پہنچی ہے اور اس ناول کو ایسی لازوال شہرت ملتی ہے کہ برنارڈ شاہ اور شیکسپیئر کے ڈراموں کی شہرت کو بھی اس ناول نے ماند کردیا تھا اور آج بھی اس ناول کا جادو کسی طرح بھی کم نہیں ہوا ہے۔ یہ ناول ہندوستان میں بھی کئی بار فلم کی صورت میں بنائی گئی اور پاکستان میں بھی فلم بنائی گئی۔
اس فلم کو ہر صورت میں شہرت نصیب ہوئی اور جس اداکارہ نے بھی امراؤ جان کا کردار ادا کیا وہ اداکارہ شہرت کی بلندی کو چھونے لگی اور کامیابی اس کا مقدر بنتی چلی گئی۔ امراؤ جان کی کہانی کو ہندوستان میں کئی ناموں سے فلموں کے پیکر میں ڈھالا گیا۔ مشہور فلمساز، مصنف، شاعر اور ہدایت کار کمال امروہوی نے پاکیزہ کے نام سے اس ناول کو فلمایا۔ فلم میں مرکزی کردار ممتاز اداکارہ مین اکماری نے ادا کیا۔
ہیرو کا کردار اداکار راج کمار نے ادا کیا اور پاکیزہ بھی اپنے گیتوں اور موسیقی کے فن میں کمال رکھتی تھی اور اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی۔ اس ناول کو بنیاد بنا کر مصنف، شاعر اور فلمساز و ہدایت کار نخشب جارچوی نے بھی زندگی یا طوفان کے نام سے فلم بنائی اور فلم میں مرکزی کردار اداکارہ نوتن نے ادا کیا تھا اور کیا خوب اداکاری کی تھی۔ اس کی کردار نگاری فلم کی جان تھی اور اس فلم کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی۔
مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول کو ایک بار پھر امراؤ جان کے ٹائٹل کے ساتھ ہدایت کار جے، بی دتہ نے 2006 میں فلمایا اور اس میں امراؤ جان کا مرکزی کردار ایشوریا رائے نے ادا کیا تھا اور شہرت حاصل کی تھی۔ پھر 1972 میں پاکستان کے نام ور ہدایت کار حسن طارق نے بھی امراؤ جان ادا کے نام سے فلم بنائی تھی جس میں اداکارہ رانی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اس فلم میں نیا اداکار شاہد حمید فلم کا ہیرو تھا۔
اس فلم کی موسیقی نثار بزمی نے دی تھی اور گیتوں کے ساتھ موسیقی نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی۔ اب میں پھر امراؤ جان ادا کے شاعر شہریار کی طرف آتا ہوں۔ ہدایت کار مظفر علی اور شاعر شہریار طالب علمی کے زمانے کے دوست تھے۔ مظفر علی کو فلمی دنیا سے دلچسپی پیدا ہوگئی جب کہ شہریار ادبی دنیا کی طرف چلے گئے۔
کتابیں لکھنے لگے، پھر ان کے دوست مظفر علی نے امراؤ جان فلم بنانے کا اعلان کیا تو اپنے دیرینہ دوست شہریار کو بحیثیت گیت نگار منتخب کرلیا۔ ان دنوں شہریار علی گڑھ یونیورسٹی میں اردو ڈپارٹمنٹ کے سربراہ تھے اور ایک اردو رسالہ شعر و حکمت کے بھی ایڈیٹر تھے۔ جب ان کے دوست نے اصرار کیا کہ تم میرے ساتھ کام کرو، یہ بہت بڑا اور مہنگا پروجیکٹ ہے۔
مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت ہے، کچھ اسکرپٹ پر بھی دونوں نے مل کر کام کرنا ہے تو پھر شہریار یونیورسٹی چھوڑ کر اپنے دوست مظفر علی کے ساتھ فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ فلم امراؤ جان ادا ریلیز ہوئی اور سارے ہندوستان میں اس فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
تامل زبان بولنے والی اداکارہ ریکھا نے فلم میں جس خوبصورتی سے لکھنوی انداز اور ناز و نخرے کی زبان بولی وہ واقعی ریکھا نے کمال کردیا تھا اور پھر ریکھا کے چرچے بھی سارے ہندوستان میں عام ہوگئے تھے۔ پھر شہریار نے کئی فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں گمان اور انجمن قابل ذکر ہیں۔ مگر قسمت نے شہریار کی فلمی دنیا میں یاوری نہیں کی اور پھر وہ دوبارہ سے فلمی دنیا چھوڑ کر تدریس اور ادبی دنیا میں واپس لوٹ گئے تھے۔
اداکارہ ریکھا اور موسیقار خیام کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ریکھا کو بہترین اداکارہ پر نیشنل ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ شاعر شہریار نے اپنی تمام تر توجہ ادب کی طرف مبذول کردی تھی۔ انھیں ان کی کتاب ''خواب کا در بند ہے'' پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ''اسم اعظم'' کے نام سے منظر عام پر آیا اور عوام میں اس کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ فلم کو بالکل خیرباد کہہ دیا اور پھر ادب کو ہی اپنی زندگی کا اوڑھنا اور بچھونا بنالیا تھا۔