آزاد کشمیر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات
مسئلہ سیاسی نظام میں ٹکراؤ یا اختیارات کے نام پر سیاسی جنگ کا نہیں
جمہوریت میں مقامی حکومتوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ مقامی حکومتیں جمہوریت کی نرسری ہوتی ہے۔ جس ملک میں منتخب مقامی حکومتیں نہ ہوں تو وہاں کے نظام کو مکمل جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا ۔مقامی حکومتوں کو خود مختاری دینا ہی جمہوری نظام کی اساس ہے۔
پچھلے دنوں 31برس کے بعد آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور نتائج بھی آچکے ہیں ۔ اس کا کریڈیٹ آزاد کشمیر کی پی ٹی آئی حکومت کو دینا چاہیے لیکن سب سے بڑا کریڈیٹ چیف جسٹس آزاد کشمیر راجہ سعید اکرم اور چیف الیکشن کمشنر عبدالطیف سلہریا کو دینا چاہیے جن کی وجہ سے انتخابات ممکن ہوسکے۔
پاکستان میں صوبائی حکومتوں کی طرح آزاد کشمیر حکومت میں بھی بلدیاتی الیکشن کے انعقاد میں تاخیری حربے اختیار کررہی تھی ، لیکن چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنرکے دباؤ پر حکومت کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ انتخابی عمل کو یقینی بنائے ۔ یوں آزاد کشمیر کے عوام کو31برس کے بعد بلدیاتی نظام ملا ۔
آزاد کشمیر کے مقامی حکومتوں کے انتخابات تین مراحل میں جماعتی بنیاد پر منعقد ہوئے ۔ اصل مقابلہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی میں ہی ہوا ۔ مجموعی طور پر پی ٹی آئی کو تینوں مراحل میں 829نشستوں پر کامیابی ملی ہے ۔ جب کہ مسلم لیگ ن کو 497، پیپلزپارٹی کو 460 اور آزاد امیدواروں نے 696نشستیں حاصل کی ہیں۔ ان انتخابات میں ضلع کونسل ، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹیاں ، یونین کونسل اور ٹاون کمیٹیوں کے انتخابات ہوئے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ مظفر آباد کی میئرشپ پر مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا مشترکہ امیدوار، راولاکوٹ میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی، جب کہ میرپور اور باغ میں تحریک انصاف کے امیدوار کو میئر شپ کے انتخابات میں کامیابی مل سکتی ہے۔
ان انتخابات میں ہمیں مقامی کشمیری جماعتوں کی بالادستی دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں کا عمل دخل انتخابی نتائج میں بڑھ گیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب آزاد کشمیر کی سیاست میں بھی ہمیں پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔ انتخابی نتائج میں بھی پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہی پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن پر نظر آتے ہیں۔
اگر یہ ہی چال رہی تو مقامی کشمیر ی قیادت یا سیاسی جماعتوں کے پاس یہ ہی آپشن باقی رہے گا کہ وہ ان ہی تینوں بڑی جماعتوں کے ساتھ مل کر ہی سیاست کریں یا خود کو ان ہی جماعتوں میں ضم کرلیں یا ان کے اتحادی بن جائیں ۔اچھی بات یہ ہے کہ ان مقامی انتخابات کے نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کیا ہے اور کسی بھی سطح سے کوئی بڑے انتخابی دھاندلی کے الزامات نہیں لگے ۔ 696نشستوں پر آزاد امیدوار میئر شپ کے انتخابات میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
اب بڑا سوال یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو خود مختاری دینا اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنانا ہے ۔ یہ کام آسان نہیں بہت مشکل ہے۔ اصل مسئلہ تو آزاد کشمیر کی حکومت کی ترجیحات کا ہے کہ وہ کس حد تک مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی اور خود مختاری چاہتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف حکومت کا فرض بنتا ہے کہ انھیں سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات مقامی حکومتوں کو دینے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی کے مقابلے میں مقامی حکومتوں اور منتخب مقامی حکومتوں کے نمایندوں کو بااختیار بنانا ہے۔
کیونکہ اگر ہم نے مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل کے باوجود بیوروکریسی یا ارکان اسمبلی کو ہی بااختیار رکھنا ہے اور وسائل کی تقسیم کو ان ہی تک محدود کرنا ہے تو مقامی حکومتوں کا نظام ناکام ثابت ہوگا۔اب آزاد کشمیر حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کو بااثر بنانے کے لیے قانون سازی کرے ۔ ان منتخب بلدیاتی نمایندوں کی تربیت کا انتظام کرے تاکہ وہ سسٹم میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
کوئی بھی مقامی سیاسی وجمہوری نظام اسی صورت میں کامیابی حاصل کرتا ہے جہاں نظام کو پوری شفافیت سمیت اس نظام سے جڑے تمام فریق کو ساتھ لے کر چلے۔مسئلہ سیاسی نظام میں ٹکراؤ یا اختیارات کے نام پر سیاسی جنگ کا نہیں بلکہ ہر ادارہ کے دائرہ کار اور ان سے جڑے قوانین اور پالیسیوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ دنیا میں جو جدیدجمہوری نظام پنپ رہے ہیں یا مضبوط ہورہے ہیں ان میں مقامی نظام حکومت کی مضبوطی ایک کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آزاد کشمیر کی حکومت کو پاکستان کی سیاسی حکومتوں کے مقامی نظام حکومت کے بارے میں موجود غلط پالیسیوں یا عدم تسلسل یا اختیارات کی مرکزیت تک محدود کرنے کی روش سے سیکھ کر خود کو زیادہ جمہوری اور قانون کی حکمرانی کے تابع کرنا ہوگا۔ یہ عمل آزاد کشمیر میں ایک بہتر سیاسی ، جمہوری اور اچھی حکمرانی کو پیدا کرے گا۔