حافظ حسین احمد سے سلمان شہباز تک

سلمان شہباز صنعتکار ہیں۔اُن کے تایا جان ملک کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں


Tanveer Qaisar Shahid December 19, 2022
[email protected]

وقت ''اچھا'' آنے پرسب اپنے اپنے گھروں کو واپس آ رہے ہیں۔ کوئی خود ساختہ جلاوطنی سے واپس آرہا ہے اور کوئی سابقہ پارٹی میں۔ یہ مراجعت کس قدر دلفریب اور دلربا ہے۔پہلے ایک سابق انتہائی طاقتور سرکاری افسر کے بھائی صاحب،کئی سال کی مبینہ مفرور زندگی کے بعد، وطن واپس آئے۔

اُن پر زمینیں ہتھیانے اور سرمایہ کاروں کی بھاری رقوم غصب کرنے کے متعدد الزامات تھے۔وہ اسلام آباد ائر پورٹ پر یوں اُترے کہ ُان کے پاس عدالت کی طرف سے گرفتار نہ کرنے کے احکامات تھے۔

پھر سابق وزیر اعظم، جناب نواز شریف کے سمدھی، اسحاق ڈار لندن میں کئی برس کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن یوں واپس آئے کہ وفاقی وزارتِ خزانہ اُن کی منتظر تھی۔ وطن واپسی کے بعد اُن کے کئی مقدمات ختم ہو چکے ہیں اور وہ اب سرخرو ہیں۔اسحاق ڈار کے بعد اب سلمان شہباز شریف بھی واپس وطن میں لینڈ کر چکے ہیں۔

اُن پر مبینہ طور پر کئی الزامات عائد ہیں اور وہ انھی کے دباؤ پر ملک سے نکل کر لندن چلے گئے تھے۔وہاں کئی سال آرام و سکون سے گزار کر اب اپنے وزیر اعظم والد صاحب کی حکومت میں واپس آئے ہیں تو اُن کے پاس بھی قانونی یقین دہانیاں تھیں کہ ُانھیں ائر پورٹ اترتے ہی حراست میں نہ لیا جائے۔

سلمان شہباز صنعتکار ہیں۔اُن کے تایا جان ملک کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اور اُن کے والد گرامی اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ایسے میں،ایک پنجابی محاورے کے مطابق، وطن واپسی پر اُن کی ہوا کی طرف بھی کوئی تک نہیں سکتا تھا،گرفتاری تو بہت دُور کی بات ہے۔

اب کوئی دن جاتا ہے جب وزیر اعظم شہباز شریف کے داماد،عمران علی یوسف، بھی لندن جلاوطنی کے بعد واپس پاکستان میں نظر آئیں گے۔ عمران خان کے دَورِ میں اُن پر سنگین مالی الزامات لگائے گئے تھے۔

خان صاحب کی حکومتی سرپرستی میں برطانوی اخبار ''ڈیلی میل''میں شہباز شریف کے ساتھ عمران علی یوسف کو بھی الزامات میں رگڑ دیا گیا تھا، یہ زیادتی تھی۔ اب ''ڈیلی میل'' نے اپنی اس تہمیی اسٹوری پر معذرت چھاپ دی ہے اور شہباز شریف سے معافی بھی مانگ لی ہے تو عمران علی یوسف بھی باعزت بری ہو گئے ہیں۔

انھیں اب واپس وطن آنا ہی چاہیے۔ شہباز شریف اور عمران علی یوسف کے ساتھ ساتھ پوری نون لیگ ''ڈیلی میل'' کی شکست پرجشن منارہی ہے۔ اس شکست میں کئی لوگ عمران خان کے بیانئے کی شکست بھی دیکھ رہے ہیں۔

بعض اطراف سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ شریف خاندان کو جس تیزی سے مقدمات میں ریلیف مل رہے ہیں،یہ غیر معمولی مثالیں ہیں۔اگر عام اور غریب پاکستانی کو بھی اسی رفتار اور تیزی سے انصاف میسر آئے تو یہ ملک جنت نظیر بن جائے۔

غریب کے لیے مگر اس ملک میں کوئی آس،کوئی امید باقی نہیں رہی۔ سلمان شہباز کی واپسی پر جناب عمران خان طیش میں بھڑک رہے ہیں اور کہہ رہے کہ ان لوگوں کو این آر او ٹُو ملا ہے۔

خان صاحب یہ تو کہتے ہی کہ ان لوگوں کو پہلا این آر او جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ملا تھا، مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ این آر او ٹُو کس نے دیا ہے؟حیران کن بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے صاحبزادے، سلمان شہباز، نے ملک واپس آتے ہی سیاسی بیانات دینے شروع کر دیے ہیں۔انھوں نے عمران خان کے بیانئے اور فوج پر اُن کی بے محابہ تنقید کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ یہ اسلوبِ گفتگو شائد ناگزیر اور خاندان کے حکومت میں رہنے کے لیے بے حد ضروری بھی ۔

مقتدر خاندان کے افراد اگر ''جلاوطنیاں''ختم کرکے جوق در جوق واپس وطن آ رہے ہیں تو اتحادی حکومت میں شامل ایک بڑی سیاسی و مذہبی جماعت کے وہ لوگ بھی واپسی کی راہ اختیار کررہے ہیں جو چند سال قبل پارٹی سے ''َنظریات کے اختلاف پر'' ازخود نکل گئے تھے ۔مثال کے طور پر جے یو آئی (ایف) کی ممتاز شخصیت قبلہ حافظ حسین احمد۔ اکہتر سالہ حافظ صاحب جے یو آئی کے بزرگ اور محترم رہنماؤں میں شامل ہیں۔

وہ بیک وقت عالمِ دین بھی ہیں، حافظِ قرآن بھی اور معروف سیاستدان بھی۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مرحوم کے عشاق میں شامل۔ حافظ حسین احمد کا دعویٰ ہے کہ وہ جے یو آئی میں اُس وقت شامل ہُوئے تھے جب حضرت مولانا فضل الرحمن کا جے یو آئی میں دُور دُور تک نشان نہیں پایا جاتا تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن صاحب اُن کے سات سال بعد جے یو آئی میں شامل ہُوئے تھے ۔

یوں جے یو آئی (ایف) میں حافظ حسین احمد صاحب کی بزرگی اور سینیارٹی مستند سمجھی جاتی ہے ۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مفتی محمود مرحوم کے صاحبزادے اور اُن کے گدی نشین ہیں۔ حافظ حسین احمد صاحب ہمارے محترم دوست ہیں ۔ لاہور اور اسلام آباد میں اُن سے لاتعداد ملاقاتیں رہی ہیں ۔

کئی بار راقم نے اُن کے انٹرویوز بھی کیے ہیں۔ وہ ملک کے ممتاز ترین طناز سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ جے یو آئی کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہُوئے وہ بعض اوقات اپنے سیاسی و جماعتی حریفوں پر طنز کی ایسی برچھی مارتے کہ حریف گھائل ہو کر رہ جاتا ۔ حافظ صاحب دو بار رکنِ قومی اسمبلی اور ایک بار سینیٹر منتخب ہو چکے ہیں۔

یوں ہر کوئی اُن کی سیاسی و دینی اہمیت و حیثیت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ ٹھیک چار سال قبل یہی دسمبر کا مہینہ تھا جب حافظ حسین احمد صاحب اپنی جماعت کے سربراہ سے بوجوہ اُلجھ پڑے تھے۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ اختلاف اصولی اور نظریاتی تھا۔ وہ جے یو آئی (ف) سے ''بغاوت '' کرکے جس دھڑے میں شامل ہوئے تھے،اُس میں مولانا محمد خان شیرانی، مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک ایسے Stalwartsبھی موجود تھے۔

جمعیت اور مولانا فضل الرحمن سے علیحدگی کے بعد حافظ حسین احمد صاحب نے کراچی کے ایک معروف معاصر کو جو مفصل انٹرویو دیا تھا ، یہ خاصا انکشاف خیز تھا۔

یہ تفصیلی انٹرویو بتاتا ہے کہ حافظ صاحب نے اپنی جماعت اور مولانا فضل الرحمن صاحب کو کیوں خیرباد کہا تھا۔ حافظ صاحب نے اس انٹرویو میں اپنی سابقہ قیادت پر جو الزامات عائد کیے تھے، ہم انھیں بوجوہ یہاں دہرا نہیں سکتے ۔

پچھلے چار برسوں کے دوران وقت کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے ۔حافظ صاحب کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو چکا ہے اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے مبینہ شکوے بھی تقریباً ختم ہو چکے ہیں ۔

سچی بات شائدیہ بھی ہے کہ حافظ صاحب کا جی بھی اُداس تھا اور جے یو آئی (ایف) کی قیادت بھی حافظ صاحب کی کمی شدت سے محسوس کررہی تھی ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں حافظ حسین احمد جماعتی دوستوں کے اصرار اور محبت سے مولانا فضل الرحمن سے ملے۔

یہ ملاقات بلوچستان میں جے یو آئی کے صوبائی امیر، مولانا عبدالواسع، کی رہائش گاہ پر ہُوئی ۔ گلے شکوے یقیناً ہُوئے کہ یہ فطری سی بات ہے اور یوں ایک بار پھر حافظ حسین احمد غیر مشرط طور پر جے یو آئی کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہماری طرف سے حافظ صاحب اور جے یو آئی کو اِس خوبصورت مراجعت پر مبارکباد۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔