نئے الیکشن اورخان صاحب
خان صاحب جس دن سے محروم اقتدار ہوئے ہیں ایک دن بھی چین وسکون سے نہیں بیٹھے
ہمارے یہاں اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت انتہائی دگر گوں ہے اور اسے بہتر بنانے کے لیے سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے۔کچھ لوگوں کے خیال میں اس کاواحد حل نئے انتخابات ہیں جب کہ دوسرا طبقہ الیکشن سے پہلے معاشی استحکام کو اہمیت دیتاہے۔
آئین ودستور کے مطابق ملک میں عام انتخابات ہر پانچ سال بعد کرائے جاسکتے ہیں۔ قبل ازوقت کروانے کے لیے بھی آئین میں طریقے موجود ہیں۔
اپریل سن دوہزار بائیس میں عدم اعتماد کے تحریک سے قبل جب PTI کی حکومت اپنے ناقص کارکردگی کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہوچکی تھی اوراس وقت کی اپوزیشن جو آج کی حکمران بھی ہے خان صاحب سے نئے انتخابات کا مطالبہ اسی طرح کررہی تھی جیسے وہ آج پی ڈی ایم کی حکومت سے کررہے ہیں،مگر کیا پی ڈی ایم کا وہ مطالبہ عمران حکومت نے تسلیم کرلیاتھا۔
نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ آخری دم تک انکار کرتی رہی اوراس مطالبے کو غیر آئینی بھی قرار دیتی رہی،ویسے بھی کسی کے مطالبے پر یوں ہردو چار سال بعد الیکشن نہیںکرائے جاسکتے ہیں جب تک آئین میں درج وجوہات میں سے کوئی معقول وجہ ظہور پذیر نہ ہو جائے۔
اس میںسے عدم اعتماد کی تحریک ایک طے شدہ دستوری طریقہ ہے،مگر اس طریقہ کارکے مطابق جب عدم اعتماد کی تحریک پارلیمنٹ میں لائی گئی تو خان صاحب اس سے بھی انکار کرتے رہے ۔وہ طوعاً و کرہاً رات بارہ بجے اس وقت اقتدار چھوڑنے پر راضی اورمجبور ہوئے جب9 اپریل کی رات بارہ بجے سپریم کورٹ کی لائٹیں اچانک روشن ہونے لگی۔
اس انتہائی لمحہ سے پہلے تک وہ کسی بھی طرح عدم اعتماد پر پارلیمنٹ میں ووٹنگ کرانے کے لیے بھی رضامند نہ تھے۔ان کی پوری کوشش تھی کہ چاہے آئین ودستور کی کتنی ہی خلاف ورزی ہوجائے، خواہ یہ ملک عدم استحکام کاشکار وہو جائے انھوںنے اسلام آباد کی حکمرانی نہیں چھوڑنی۔
پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے کسی حکومت کاخاتمہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ سترپچھتر سالوں کی تاریخ میںیہ پہلی بار ممکن ہوسکاتھا۔
خان صاحب جس دن سے محروم اقتدار ہوئے ہیں ایک دن بھی چین وسکون سے نہیں بیٹھے۔ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ ایوان اقتدارسے نکل کرمیں اوربھی خطرناک بن جاؤں گا۔آج خان صاحب کوسڑکوں پر نکلے تقریباً آٹھ ماہ ہوچکے ہیں۔اس پورے دور میں وہ احتجاج اورجلسے جلوس، لانگ مارچ اور ریلیاں نکال کرخود بھی تھکتے جا رہے ہیں اوراپنے حمایتوں کو بھی خوار کرتے جارہے ہیں۔
اُن کا خیال ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد انھیں جو اچانک غیر متوقع عوامی حمایت اورپذیرائی حاصل ہوگئی ہے اگر دیر ہوگئی تواس میں پھر سے کمی نہ آجائے۔اسی لیے وہ ایڑھی چوٹی کازور لگارہے ہیں کہ جلد ازجلد اس عوام مقبولیت کو کیش کروالیا جائے ،جب کہ اُن کے مخالف بھی پوری طرح ڈٹے ہوئے ہیں اورجس معاشی مشکل صورتحال میں انھوں نے یہ حکومت سنبھالی تھی وہ پہلے اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کرناچاہتے ہیں ۔
تاکہ اس معاشی چنگل سے باہرنکل کرعوام کو کچھ ریلیف دیکر اپنی مقبولیت کاگراف پھر سے اسی سطح پر لے آئے جہاں وہ اس اقتدار سے پہلے تھا۔ یعنی دونوں فریق اپنی اپنی مقبولیت کو کیش کروانے کے لیے تگ ددو بھی کررہے ہیںاور ہاتھ پاؤں بھی مار رہے ہیں۔
خان صاحب سمجھ رہے تھے کہ انھیں عوام کو سڑکوں پرلانے کا بہت اچھا تجربہ ہے اوروہ اس طرح اس حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پرمجبورکرسکتے ہیں ،لیکن وقت اورحالات نے ثابت کردیا کہ غیر دستوری طریقوں سے کسی حکومت کو فارغ کرنا کوئی اتنا آسان نہیں ہوتا۔انھیں اب پتاچل گیا ہے کہ ایسے مشن کی کامیابی کا انحصار پس پردہ قوتوں کی مکمل سپورٹ پر ہواکرتاہے۔
2014 میں وہ اگر 126دنوں تک ڈی چوک پردھرنا دے پائے تو اس میں بھی پس پردہ ہاتھ موجود تھا۔اس بار وہ ایسی کسی درپردہ حمایت سے محروم ہوچکے ہیں۔ اسی لیے بہت زور لگانے کے باوجود وہ راولپنڈی سے آگے ایک قدم بھی نہ جاسکے۔
قسطوں پر ترتیب دیے ہوئے لانگ مارچ کااختتام بھی اسمبلیاں توڑدینے کے اعلان کے ساتھ صرف اس لیے کیاگیا کہ لانگ مارچ کا واپس لپیٹ دیا جانا خان صاحب کی ناکامی کے مترادف سمجھا جاتا۔ فیس سیونگ کے مقصد سے کیے جانے والے اس اعلان کو بھی تین ہفتوں سے زیادہ وقت گذر چکا ہے لیکن اس کی عملی شکل ابھی تک عوام نے نہیں دیکھی۔کوئی بعید ازقیاس بھی نہیں کہ خان صاحب اس بار بھی اپنے اعلان سے یوٹرن لے لیں۔
ویسے بھی دو صوبوں کی حکمرانی سے خود اپنے ہاتھوں سے محروم ہوجانا کوئی دانشمندانہ فیصلہ قرار نہیںدیا جاسکتاہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے جوفوائد انھیں اس وقت حاصل ہیں وہ اُس سے باہرنکل کرقطعاً حاصل نہ رہیںگے۔
ادھر نئے انتخابات کاوقت ویسے بھی قریب ہوتا جارہاہے۔ اس لیے سیاسی شعور اوربصیرت کاتقاضا یہی ہے کہ خان صاحب اگلے سال الیکشن کی تیاری کریں اورجب تک ملک کی معیشت کوسدھرنے کاموقع دیںتاکہ وہ اگر نئے الیکشن میں جیت بھی جائیں تو معیشت کچھ اس قابل ہوکہ وہ اُسے سنبھال پائیں۔
یہ ملک اسی طرح برباد ہوتارہاتو تاریخ ہم میں سے کسی کو بھی معاف نہیں کرے گی۔ الیکشن اگر دوچار مہینے لیٹ بھی ہوجائیں تو اس سے کیافرق پڑے گا۔ غیر جمہوری حکومتوں کے دور میں دس دس سالوں تک الیکشن نہیں کروائے گئے لیکن کسی سیاستداں کی ہمت نہ ہوسکی کہ وہ اس طرح کی افراتفری پیداکرکے ملک کی معیشت کونقصان پہنچائے۔
خود خان صاحب پرویز مشرف دور میں احتجاج کے بجائے مشرف صاحب کے حمایتی اور ہمنوا بنے ہوئے تھے۔نواز شریف اورمحترمہ بے نظیر صاحبہ تو جبری جلاوطنی پر اس ملک سے نکال دیے گئے تھے لیکن خان صاحب اس وقت یہیں موجود تھے اورمشرف کے ریفرنڈم کی بھر پور حمایت کررہے تھے۔
وہ آج گرچہ عوام الناس کو بتارہے ہیں کہ میں اکیلا مشرف مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کررہاتھامگر عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اُن دنوں کیاکررہے تھے۔ عدلیہ کی تحریک جو 2007 میں چلائی گئی، جس کے نتیجہ میں جنرل مشرف زوال کاشکار ہوئے، اس میں بھی اُن کاکوئی کردار دکھائی نہیں دیتا ہے۔
عمران خان صاحب کی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنا کہ وہ اگلے الیکشن کے بعد سکون وآرام سے بیٹھ جائیں گے شاید ایک بہت بڑی خوش فہمی ہو۔ وہ جس قسم کی سیاست کے عادی ہوچکے ہیں اس میں سکون اور اطمینان نام کی کوئی شہ موجود نہیں ہے۔
وہ سمجھ رہے ہیں کہ الیکشن اگر صاف اورشفاف ہوئے تووہ دو تہائی اکثریت سے جیت جائیں گے لیکن اگر ایسا نہ ہواتو وہ اس الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ایک بار پھر اس قوم کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، یعنی وہ صرف اسی ایک صورت میں انتخابی نتائج کو تسلیم کرینگے جب نتیجہ ان کے حق میں ہو، وہ بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ۔ اس کے علاوہ وہ کوئی اور نتیجہ ماننے کو ہرگز تیار نہ ہوںگے، جب کہ اس مسلسل احتجاجی سیاست سے اب ہمارے عوام بھی بیزار ہونے لگے ہیں۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خان صاحب کی مقبولیت بھی کم ہوتی جارہی ہے اورکوئی بعید نہیں کہ وہ اگلاالیکشن ہار جائیں،اگر ایسا ہواتو کیاوہ ان انتخابی نتائج کو مان جائیں گے۔بادی النظر میں ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔اس کے بعد کیا ہوگا،یہ اب ہمارے عوام کوسوچنا ہے۔