ربط باہمی کا حسن
انسان کو اپنی سوچ کا ناقص انداز اور لاپرواہی نقصان دیتی ہے۔ پرکھ کا محدود زاویہ کئی تکراری مسائل کا پیش خیمہ بنتی ہے
ISLAMABAD:
انسان کے اندر توانائی کی لہریں اس کے ذہن و جسم کی فعال کارکردگی کی ضامن ہیں۔ یہ قوت زندگی کی بنیاد ہے۔ توانائی منتشر ہو تو زندگی کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ جسم اگر صحت مند ہے تو ذہن کی کارکردگی بھی فعال رہتی ہے۔ قوت کی رو انسان سے لے کر پوری کائنات میں سفر کرتی ہے۔ یہ لہریں انسانوں کے مزاج و صحت پر مختلف طریقے سے اثرانداز ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحول انسان کے مزاج و صحت کی بہتری کا تعین کرتا ہے، کبھی تغیر انھیں زوال پذیری کی طرف لے جاتا ہے۔ زندگی چونکہ کبھی یکساں نہیں رہتی، یہ وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
نامساعد حالات میں رویوں کا اعتدال غیر متوازی ہو جاتا ہے۔ بیمار جسم یا ذہن کی سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ وہ توانائی رکی ہوئی، غیر فعال اور منجمد کہلاتی ہے، جو دوسروں کا راستہ روکتی ہے۔ ذہن کا ابہام نہ فقط جسم پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، بلکہ باہر کے ماحول کو بھی الجھا کے رکھ دیتا ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے ایک اہم کتاب The Ways of Healing میری نظر سے گزری ہے۔ جس کے مصنف Chi Kung اس کتاب میں جسم کی توانائی کے منفی و مثبت اثرات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ ذہن و جسم کی بکھری ہوئی توانائی کو رواں دواں رکھنے کے لیے مختلف طریقے اور مشقیں بتائی گئی ہیں۔ مصنف یورپ میں کئی سال تک Tai Chi اور Feng Shui سکھاتے رہے ہیں۔
کنگ کہتے ہیں کہ انسان کے جسم میں موجود توانائی اگر رکی ہوئی ہے، جو کسی چوٹ، مشقی تناؤ، ذہنی دباؤ، درد یا کسی بیماری کے باعث ہو تو اس رکاوٹ کو دور کر لینا چاہیے، انسان کو اپنی ذہنی و جسمانی صحت کی ذمے داری خود اٹھانی چاہیے۔ قدیم حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''وہ لوگ جو کائنات کے قوانین کی حکم عدولی کرتے ہیں، وہ تباہی و حادثات کو خود دعوت دیتے ہیں جب کہ وہ جو فطرت کے اصولوں کی تقلید کرتے ہیں وہ مشکلات و خطرناک بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔'' گویا کہ انسان ہی اپنے مسائل کا ذمے دار خود ہے، آج ملکی و بین الاقوامی حالات اپنے ہی بچھائے ہوئے مفاد پرستی کے جال میں بری طرح الجھ چکے ہیں۔ اور زمین کا گولہ انسانوں کے لیے تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے اس پرآشوب دور میں جہاں بیک وقت بے شمار مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں، وہاں ذہنی و جسمانی طور پر خود کو چست و فعال رکھنا مشکل طلب مرحلہ ہے۔ کیونکہ معاشرتی تضادات اور غیر مناسب رویوں نے ہر طرف بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ایسی صورتحال میں ذہنی سکون اور معیار زندگی زوال پذیر ہیں۔ اگر ہم تاریخ میں جھانکنے کو دیکھیں گے تو دنیا کی بہت سی قومیں ایسی نظر آئیں گی جو بڑی تباہیوں سے گزری ہیں۔ پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک، دنیا پر اندیشوں کے مہیب سائے منڈلاتے رہے ہیں۔ ایشیا سے لے کر افریقہ و یورپ کے بہت سے ملک، خانہ جنگی سے لے کر بیرونی جارحیت کا شکار رہے، مگر ایک موڑ پر ان ملکوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور وحشت و بربریت کی کھائیوں میں گری انسانیت کو باہر نکال کر لے آئے۔
ان ملکوں نے تعلیم کے نظام کو بہتر بنایا، ویران کتب خانوں کو آباد کیا اور جمہوری نظام کو مستحکم بنایا اور دنیا پر حکمرانی کرنے لگے۔ ذہنی انتشار سے نجات، حالات کا منطقی انداز سے تجزیہ و مقابلہ، گفتگو میں احتیاط اور غیر متعصب سوچ بہت سے مسائل کا حل ڈھونڈ کے دیتی ہے۔ ربط باہمی سے انحراف بے اطمینانی کا خلا پیدا کر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد معاشرہ نامعلوم تیسرے فرد کے ہاتھوں تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ تیسرا فرد ہر دو لوگوں کے بیچ میں موجود رہتا ہے۔ ذہنی بیداری اس انتشار کو مسترد کر دیتی ہے۔ کیونکہ وہ نفاق کا چہرہ پہچان لیتی ہے۔ فطرت کا قانون بھی چیزوں کے مابین رابطے، باہمی اشتراک اور یکسوئی کا متقاضی ہے۔ سب سے پہلے فرد کو ذہنی انتشار کا فوری حل ڈھونڈنا ہے۔ ہر طرف برپا عجیب سے شور کو خاموش کرانا ہے۔ شور ہی تمام تر فساد کی جڑ ہے۔ کتاب کا مصنف کنگ کہتا ہے کہ شور اور ابہام فطری رو کا بہاؤ منقطع کر دیتا ہے۔
جتنا الجھاؤ ہو گا اسی تیزی سے انسانی صحت کا گراف نیچے کی طرف گرنے لگے گا۔ تمام تر مشقیں یکسوئی اور ارتکاز کی کیفیت کو پیدا کرنے کے لیے ہیں۔ مصنف یہ کہتا ہے کہ جدید دور میں ایک مصروفیت سے نکل کر ہم دوسری مصروفیت ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ خود کو پرسکون رکھنے کے لیے آرام کے بجائے یا موبائل پر مصروف ہو جاتے ہیں یا دوسرے تفریحی ذریعوں میں الجھ جاتے ہیں۔ ذہن کو کہیں بھی آرام نہیں ملتا۔ فرد کو مصروف زندگی اور تمام تر مسائل سے کٹ کر زندگی کے تسلسل کو محسوس کرنا ہے۔ اسے اردگرد کے ماحول سے دوبارہ تعلق جوڑنا ہے۔ تا کہ فطری ماحول کی قوت سے فائدہ حاصل کر سکے، جس میں دھاتیں، زمین، پانی، درخت اور آگ کی توانائی شامل ہے۔
انسان کو اپنی سوچ کا ناقص انداز اور لاپرواہی نقصان دیتی ہے۔ پرکھ کا محدود زاویہ اور ناسمجھی کئی تکراری مسائل کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ ایسی صورتحال میں مصنف یہ مشورہ دیتا ہے کہ جب مسائل کا حل نہ مل سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مصروف زندگی میں چند لمحے ایسے نکالنے ہوں گے، جو انسان کو اس کی ذات کے مرکز کی طرف واپس لے آئیں۔ اسے اپنے کھوئے ہوئے تمام تر مثبت رابطے دوبارہ بحال کرنے ہوں گے۔ اپنے اندر تعلق کی روشنی کو محسوس کرنا ہوگا۔ کتاب میں دی گئی تمام تر مشقیں فطرت کے خوبصورت مناظر کے درمیان کھڑے ہو کر سکھائی گئی ہیں۔
قدیم تہذیبیں خاموشی اور تنہائی کے لمحوں سے تحرک حاصل کرتی رہی ہیں۔ پھر ہر نسل نئی نسل کو وہ سنہری اصول ذمے داری کے ساتھ منتقل کرتی ہے، تا کہ معاشرہ ترتیب کے احاطے سے باہر نکلنے نہ پائے۔ شور مچاتے ہوئے ذہن کو خاموش کرانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ سوچ کی بے ترتیبی صحیح وقت پر صحیح فیصلے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ذات کے داخلی شور کے ساتھ اردگرد کے ماحول میں بھی سکون کی امواج کمیاب ہیں۔ آوازوں کی آلودگی ہر طرح سے انسان کے اعصاب کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ صبح سے شام تک منفی باتیں سن کر ہماری تمام تر حسیں بری طرح آلودہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ جس سے یقینی طور پر جسم کی توانائی بکھرنے لگتی ہے۔
انسان کی سوچ کا انداز مسائل کو کم یا زیادہ کر دیتا ہے۔ جیسے موسم کی شدت فقط ان لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہے، جن کے جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح واقعات و حادثات روحانی طور پر کمزور لوگوں پر شدت کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں تمام تر مشقیں ذہن و جسم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں۔ ذہن، جسم و روح کی یکجہتی روحانی قوت کو مضبوط کرتی ہے۔ ایک مضبوط تعلق جو اس کائنات میں ہر سمت سفر کرتا ملتا ہے۔ انسانی خیالات میں اگر رابطہ اور ہم آہنگی نہ ہو تو زندگی کی کشتی بغیر ملاح کے ہوا کے دوش پر ڈگمگاتی رہتی ہے۔ تعلق کی یہ ڈور اگر ٹوٹ جائے تو سماجی زندگی بھی زوال پذیر ہو جاتی ہے۔
بقول شاعرمشرق:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں