آئیے ہنسنا شروع کریں
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ آپ سے نہ ملنا چاہتے ہوں اورآپ وہاں دھرنا دیے رکھیں
فارسی کے شاعر انوری تنگ معاش کا شکار رہتے تھے، انھوں نے اپنی حالت و کیفیت اس قطعہ میں اس خوبصورتی سے بیان کی کہ ضرب المثل بن گیا۔
ہر بلائے کز آسمان آید
گرچہ بر دیگراں قضا باشد
بر زمیں نا رسیدہ می گوید
خانہ انوری کجا باشد
اس کا مفہوم یہ ہے کہ آسمان سے جو بھی آفت نازل ہوتی ہے،چاہے اسے کسی اور کے گھر پر گرنا ہو لیکن پتہ انوری کے گھر کا پوچھتی ہے۔
ایسا لگتا ہے آج کل پاکستان بھی خانہ انوری بنا ہوا۔ سیاسی فتنہ انگیزیوں اور معاشی حشرسامانیوں نے ہمیں مینٹلی مفلوج کر دیا ہے۔ ہر بندہ مایوس اور پریشان ہے، ایسا لگتا ہے کہ لوگ مسکرانا اور قہقہہ لگانا بھول گئے ہیں۔
مہنگائی اور بیروزگاری کے دکھ اور المیے تو ہمیشہ سے چلے آ رہے ہیں لیکن ہم نے بھی خوش نہ رہنے کی قسم کھا رکھی ہے' جس سے بھی ملیے' مردم بیزار اور اداس نظر آئے گا ، بولے گا تو کفن پھاڑے گا، کسی کو گالی دے گا یا سیاست کا ارسطو بن جائے گا ، اگر عمران خان کا فدائی ہے تو پھر سمجھیں پاکستان ڈیفالٹ ہوچکا ہے، نواز شہباز اور زرداری نے ملک کنگال کردیا ہے۔
اگر نواز شریف اور زرداری کو لیڈر مانتاہے تو عمران خان دنیا کا جھوٹا ترین لیڈر قرار پائے گا۔ آپ موضوع تبدیل کرنے کی کوشش کریں تو موصوف آپ کو اطلاع دے گا' یار! فلاں صحافی اچانک انتقال کر گیا'فلاں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے، وغیرہ وغیرہ، اگر کوئی افسر ہے یا آسود حال ہے ، تو خوش وہ بھی نہیں ہے۔ یار! اس ماہ بجلی کا بل60ہزار روپے آ گیا ہے' سردیوں میں اتنا زیادہ بل کیسے آ سکتا ہے'یہ حکومت ملک کو برباد کردے گی۔ اب آپ ہی بتائیں' ایسے دکھڑے اور کوسنے سن کر کون کمبخت مسکرا سکتا ہے۔
دیکھیے ناں!میں بھی تو آپ کو پریشان اور مایوس ہی کر رہا ہوں حالانکہ میں نے تہہ کیا تھا کہ کچھ مثبت لکھوں گا لیکن میں بھی ذہنی خلفشار کا شکار اور ڈپریس ہوں۔ ماہرین نفسیات وسماجیات کہتے ہیں' ہنسنا' مسکرانا اور قہقہہ لگانا' ذہنی ، روحانی اور جسمانی صحت کے لیے ایک ٹانک ہے، ایک ایسی دوا جو مفت ملتی ہے ،قدرت کی بے پایاں نعمتوں میں سے ایک نعمت ہنسنا بھی ہے۔ اس پر کوئی خرچ نہیں آتا، بس سوچنے کے انداز کو بدلنا ہے۔
بے شک پاکستان میں مختلف قسم کی پریشانیوںاور مسائل کا انبار ہے لیکن ذرا غور کریں تو آپ کواپنے اردگرد خوشیاں بھی نظر آئیںگی، آپ انھیں اپنی طرف بلائیں ، خوشیاں آپ کے پاس آ جائیں گی۔ آپ کو چڑیوں کی چہکار بھی سنائی دے گی، پھول اور کلیاں بھی دکھائی دیں گی،خوشبو بھی محسوس ہوگی، نوجوان اور بچے اچھلتے کودتے اور قہقے لگاتے نظر آئیں گے۔
آپ مایوس اوراداس ہیں یاآپ کو غصہ بہت آتا ہے تو اس اسٹیٹ آف مائنڈ سے نکلنے کے لیے مسکرانا اور کھل کر ہنسنا موثرترین دوا ہے، ایسا کرنے سے موڈ خوش گوار اور طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے ، باہمی رشتے اور تعلق مضبوط ہوتے ہیں۔
جاپانیوں نے قدرت کی اس نعمت کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، اگر کسی جاپانی کی کار دوسری کار سے ٹکراجائے تو کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں گے ،سر جھکائیںگے اور جو غلط ہے ، وہ اپنی غلطی تسلیم کرے گا، دوسرا مسکرا کر کہے گا، کوئی بات نہیں۔ دونوں پھر جھکیں گے اور مسکراتے ہوئے اپنی منزل کو روانہ ہوجائیں گے، نہ شور شرابا، نہ خون خرابا، نہ مقدمہ نہ پولیس۔ ایک واقعہ یا حادثہ ہو ہی گیا ہے تو پھر لڑنے مرنے ، چیخنے چلانے اور ہجوم اکٹھا کرنے کا کیا فائدہ ہے۔پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔
میں نے کچھ عرصہ قبل ایک کاروباری شخصیت سے سوال پوچھا تھا کہ کامیابی کا کوئی ایک راز بتادیں۔ وہ بولا، مسکراہٹ ۔ میںاس جواب سے مطمئن نہیں ہوا۔گھرپہنچ کر گہرائی سے سوچا تو مجھے یاد آیا کہ وہ کاروباری شخصیت مجھ سے دل آویزمسکراہٹ کے ساتھ بات کرتا رہا' تب مجھ پر مسکراہٹ کی اثرپذیری اورتاثیر منکشف ہوئی ۔
آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ کامیاب لوگ جس سے بھی ملیں گے ، مسکرا کر ملیں گے، ملازمین سے مسکرا کر ملنا، ان کے دل جیتنے کے مترادف ہوتا ہے ، جس نے یہ راز پا لیا، وہ کامیاب ہوگیا ۔ آپ کسی کو مسکرا کرخوش آمدید کہیے ، یہ مسکراہٹ مدمقابل کی نیک خواہشات اپنی جھولی میں سمیٹ لیتی ہے۔ ایسا فرد بہت جلد ترقی کرتا ہے ،کامیابی خود اس کے پاس پہنچ جاتی ہے۔بس سمجھنے کی بات ہے۔
بھارت میں اس پر کام ہورہا ہے ۔وہاں پر ''ہاسے'' یعنی لافٹرکلب بنے ہوئے ہیں۔ان کلبز میں ہر عمر کے مرد اور خواتین جاتے ہیں ، وہاں صرف ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے اور تالیاں بجاتے ہیں۔ سیلیبریٹیز، کاروباری اور سیاسی شخصیات ہاسے کلبز میں جاتے ہیں اور وہاں ہنستے مسکراتے ہیں،تالیاں بجاتے ہیں۔
دوسروں کوپرسکون اور نارمل رکھنے کے لیے مسکراہٹ کو زندگی کا حصہ بنالیں اور پھر دیکھیں آپ کا اور آپ کے کولیگز، دوستوں اور رشتہ داروںکا مزاج اور رویہ کس طرح خوشگوار ہوتا ہے۔اپنے ہوں یا پرائے' اگر آپ انھیں مسکرا کرملیں گے تو وہ کھل کر اظہار کریں نہ کریں لیکن دل میں خوش ہوں گے اور آپ کے بارے میں اچھے انداز میں سوچیں گے۔
کسی فلسفی نے کہا ہے ''میں ہنستا رہتا ہوںکیونکہ اگر میں ہنسوں گا نہیں تو رونا شروع کر دوںگا۔لہٰذا مجھے اپنی صلاحیتوں کا رخ منفی سمت کے بجائے مثبت سمت میں موڑنا ہوگا،ورنہ یہ صلاحیتیں آنسوؤں میں تبدیل ہوجائیںگی کیونکہ آنسوؤں اور مسکراہٹوں میں بہت کم فاصلہ ہوتا ہے''۔
کیا ہم نے کبھی خود احتسابی سے گزرنے کی کوشش کی ہے؟ نہیں ناں۔ آپ ذرا سوچئے ،آپ خوش کیوں نہیں رہتے؟ یاد کریں،آپ آخری بار کب کھل کر دل سے ہنسے تھے؟ یہ کوئی مشکل سوال نہیں ہے'آپ کو سب یاد ہے۔
ہمارے ملک میںآئے روز کوئی نہ کوئی بحران سر اٹھالیتا ہے،جو سارے ماحول کو اداس کردیتا ہے، ایسے میں ہنسنا اور مسکرانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے لیکن ان مشکل حالات کے باوجود ہم خوش رہنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
ہمیں ہر وقت جلنا کڑھنا، نوکری فوبیا اوردوستوں سے حسد کرنے جیسے رویے ترک کرنا ہوںگے۔ جو لوگ آپ کے لیے ذہنی کوفت کا سامان پیدا کریں، ان سے جتنا دور رہیں، بہتر ہوگا۔ اداس اور حاسدوں سے ملنا، مسرتوں کو ضایع کرنے کے مترادف ہے،اپنی خود احتسابی کریں۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ آپ سے نہ ملنا چاہتے ہوں اورآپ وہاں دھرنا دیے رکھیں،آپ کی باتیں کسی کے لیے دل آزاری کا باعث بن رہی ہوں، آپ طنز کے لبادے میں دوسرے کی بے عزتی تو نہیں کررہے، اس کا پتہ خود احتسابی کا چلہ کاٹنے سے ہی چل سکتا ہے، اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لیجیے آپ نے آدھی جنگ جیت لی ہے۔
یقین کیجیے! مسکراہٹ کوئی خارجی چیز نہیں ہے جو بازار سے خرید کر لائی جاسکتی ہے، یہ ہماری روح کا جوہر ہے۔ آپ کہیں بھی ہوں ،کسی بھی حالت میں ہوں، اپنی روح کے اس پوشیدہ خزانے کو با آسانی پاسکتے ہیں۔ یاد رکھیں!یہ خزانے لٹانے سے کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے رہتے ہیں۔
آئیں!آج ہی روح کے اس خزانے کی تلاش شروع کرتے ہیں، لیکن یہ ارادہ باندھنے سے پہلے ذرا ایک بار ضرور مسکرائیے ضرور تاکہ آپ کے افسردہ دوست کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آجائے۔ہمیں آج ہنسنے اور مسکرانے کی جتنی ضرورت ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ کورونا، ڈنگی، بجلی کے بلزاور مستقبل کے خوف و ڈر سے باہر نکلیں، اپنے حال پر فوکس کریں'اچھا سوچیں، اچھا بولیں،اچھا کریں' ایسا کرنے میں آپ کا جاتا ہی کیا ہے۔