غیر معمولی تقریبات دوسری قسط
پالیسی سازوں نے انتہائی وفادار غلاموں کی طرح یہاں اردو کا داخلہ بند کیا ہوا ہے
نومبر کی 22تاریخ کو وزیرآباد کے ایک معروف شادی گھر کا ہال علمائ، وکلائ، دانشوروں، اساتذہ، صنعتکاران، تاجران اور نوجوانوں سے بھرا ہوا تھے۔
اسٹیج سیکریٹری پروفیسر ارشد بخاری تھے اور تقریب کے منتظمین کرنل وقار، امتیاز اظہر باگڑی، ناصر محمود، ارسلان بلوچ اور خواجہ جمیل ایڈوکیٹ اسٹیج پر بیٹھے تھے۔
شہر کی انتہائی قابلِ احترام اور بزرگ شخصیّت ڈاکٹر محمد یوسف صاحب صدارت کررہے تھے جب کہ راقم مفکّرِ پاکستان اور ان کی فکر اور پیغام کے بارے میں گھنٹہ بھر خطاب کرتا رہا۔ سامعین نے پہلو بدلا نہ اُکتاہٹ کا اظہار کیا، بلکہ تقریب کے خاتمے پر بیسیوں سامعین اسٹیج پر آکر ملتے رہے اور بڑے پرجوش انداز میں کہتے رہے ، '' آج تو ایمان تازہ ہوگیا ہے، آج معلوم ہوا ہے کہ اقبالؒ کا پیغام کس قدر تازہ اور توانا ہے''۔ تقریباً تمام سامعین کی متفقہ رائے تھی کہ وزیرآباد میں کئی دھائیوں کے بعد اتنے اعلیٰ معیار کی تقریب منعقد ہوئی ہے۔
علاّمہ اقبال کونسل وزیرآباد کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر محمد یوسف صاحب کے سپرد کی گئی۔ کرنل وقار صاحب، میر ماجد صاحب، امتیاز باگڑی صاحب، بریگیڈئیر بابر صاحب، ناصر محمود صاحب ، حافظ منیر صاحب اور نوجوانوں کے مقبول لیڈر ارسلان بلوچ نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، ہم ہرسال اقبال ڈے اور قائد اعظم ڈے ضرور منایا کریں گے اور ان موقعوں پر عوام خصوصاً طلباء و طالبات کو بانیانِ پاکستان کی خدمات اور نظریات سے روشناس کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اسی سلسلے میں 27دسمبر کو وزیرآباد میں قائدؒ کی یاد میں ایک بھرپور تقریب منعقد کی جارہی ہے۔
پاکستان آرمی کے کمانڈاینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کو بلاشبہ ایشیا کی بہترین اور دنیا کی پہلی پانچ تربیّت گاہوں میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں آرمی کے انتہائی قابل افسران پروموشن کورس کے لیے آتے ہیں۔ ملک کی اہم ترین شخصیات اسٹاف کالج میں لیکچر دینا اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہیں۔ راقم کو چوتھی بار اس عظیم ادارے میں ''فکرِ اقبال اور جدید لیڈرشپ کا تصور'' کے موضوع پر لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا۔ا سٹاف کالج کے کمانڈنٹ میجر جنرل عامر احسن نواز ایک پڑھے لکھے، ذہین اور پروفیشنل آفیسر ہیں۔
ان کے دفتر میں سبز چائے پینے کے بعد ہم آڈیٹوریم کی جانب روانہ ہوئے۔ اسٹیج پر پہنچ کر سامنے دیکھا تو آڈیٹوریم باوردی افسروں سے اور گیلری آرمی افسران کے اہلِ خانہ سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ کبھی کبھار یہاں لیکچر سننے کے لیے فیملیز کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔
اسٹاف کالج میں پہلی بار مجھے اُس وقت مدعو کیا گیا تھا جب اس ادارے کے سربراہ جنرل ندیم انجم تھے، میں نے ان سے ملتے ہی سوال کیا تھا کہ آپ نے اقبالیات پر بات کرنے کے لیے کسی پروفیسر کے بجائے ایک سابق پولیس افسر کا انتخاب کیوں کیا؟ انھوں نے جواب دیا تھا کہ ''معلّمین کا نقطۂ نظر سننے اور جاننے کا تو سب کو موقع ملتا رہتا ہے مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک منتظم اور عملی آدمی اقبالؒ سے کس طرح inspire ہوا ہے ۔
یونیفارم فورس کے افسران ایک Practitionerکی باتوں کو زیادہ دلچسپی سے سنیں گے اور زیادہ وزن دیں گے''۔ بہرحال اس بار سوا گھنٹے کے لیکچر کے بعد آدھ گھنٹہ سوال و جواب کی نشست رہی، لیکچر کے بعد جنرل صاحب کے ساتھ آڈیٹوریم سے باہر نکلا تو انھوں نے اسے "v.inspiring" قرار دیا۔ لیکچر کے بعد چائے پر تمام سینئر افسران شریک تھے، فوج کے تربیّتی اداروں میں ہر موضوع پر کھل کر گفتگو ہوتی ہے اور اختلافِ رائے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، چائے پر بھی اور رات کو عشائیے پر بھی افسروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر بڑی کھل کر باتیں ہوتی رہیں۔
میں نے پوچھا کہ '' عسکری قیادت نے فوج کو سیاست سے الگ رکھنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟'' تقریباً تمام نے اسے خوش آیند قرار دیا۔ سب کا اتفاق تھا اور سب نے پورے خلوص کے ساتھ اس عزم کا اظہار کیا کہ فوج کے بارے میں کبھی یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ وہ فلاں پارٹی یا فلاںسیاسی لیڈر کی حامی یا فلاں کی مخالف ہے۔ فوج کو کسی بھی صورت میں متنازعہ نہیں بننا چاہیے تاکہ پوری قوم اس کا دلی احترام کرے اور اس کے ساتھ کھڑی ہو۔
سول سروسز کی طرح عسکری اداروں کے تربیتی اداروں میں بھی لیکچر عموماً انگریزی زبان میں دیے جاتے ہیں، ظاہر ہے یہ روایت انگریزی دور سے چلی آرہی ہے۔ پولیس اور سول سروس کے لیے منتخب ہونے والے گریڈ سترہ کے افسران (اے سی یا اے ایس پی) ہوں یا گریڈ 20کے ڈی آئی جی یا کمشنر ان کا رابطہ یا تو عوام کے ساتھ ہوتا ہے یا اپنے ماتحتوں کے ساتھ، دونوں صورتوں میں وہ اکثر اردو میں بات کرتے ہیں یا کبھی اپنی مقامی زبان میں۔ انھیں انگریزی کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور وہ کسی غیر ملکی زبان کے بغیر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں مگر CSS کا امتحان اب بھی صرف انگریزی میں مہارت جانچنے کا ٹیسٹ ہوتا ہے اور ان کے تمام تربیّتی اداروں میں لیکچر انگریزی زبان میں ہی دیے جاتے ہیں۔
پالیسی سازوں نے انتہائی وفادار غلاموں کی طرح یہاں اردو کا داخلہ بند کیا ہوا ہے۔ یہی روایت عسکری اداروں میں چل رہی ہے، ملٹری افسران تو اپنے ماتحتوں یا سینئرز سے بات چیت کرتے ہیں جو عموماً اردو میں ہی ہوتی ہے پھر تربیّتی اداروں میں اردو کا داخلہ بند کیوں ہے؟ اس موضوع پر سینئر افسروں کے ساتھ بات چیت ہوئی تو سب نے تسلیم کیا کہ اس کلچر یا روایت کو چاہے کتنے دلکش غلافوں اور نرم الفاظ کے پردوں میں چھپایا جائے مگر یہ صرف اور صرف غلامانہ سوچ ہے جو کئی دھائیوں سے چلی آرہی ہے اور گوروں کے جانے کے بعد براؤن صاحبان بڑی وفاداری کے ساتھ (بلکہ اصل میں احساسِ کمتری کے ساتھ) اسے آگے بڑھارہے ہیں۔
اسٹاف کالج میں نئی نسل کی قومی زبان سے لاتعلّقی (وہ نہ اردو پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں) پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور قومی زبان کو زندہ رکھنے کی اہمیّت اور ضرورت پر بھی اتفاقِ رائے پایا گیا۔ میری فلائیٹ چونکہ دوسرے روز تھی اس لیے رات کو فیکلٹی سے تعلق رکھنے والے کئی کرنل صاحبان مجھے ریسٹ ہاؤس میں ملنے آئے۔
سب بڑے پرجوش تھے اور لیکچر کے بارے میں سب کی متفقہ رائے تھی کہ''علاّمہ اقبال کا پیغام جس طرح سنایا گیا ہے اس نے نہ صرف ہمیں inspireکیا ہے بلکہ ہمارے جذبوں کو بیدار کردیا ہے''۔ ابھی گپ شپ چل رہی تھی کہ سی سی پی او کوئٹہ کیپٹن اظفرمہیسر ملنے آگیا۔ اظفر میرے ساتھ گوجرانوالہ میں اے ایس پی رہاتھا، ماشااللہ بہت زیرک، معاملہ فہم اور بہادر افسر ہے۔
اس سے تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد مجھے اسٹاف کالج کے عشائیے میں شرکت کے لیے جانا تھا مگر اظفر نے ضد کی اور کچھ دیر کے لیے اس کی رہائش گاہ پر (جو کوئٹہ کینٹ میں ہی ہے) آنے کا وعدہ لے لیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ ''کئی نوجوان افسر آپ سے ملنے کے خواہشمند ہیں، بلوچستان کے حالات ذرا نامساعد اور مشکل ہیں ۔
اس لیے ان کی Morale boosting کی بھی ضرورت ہے'' چنانچہ اسٹاف کالج کے سرکاری عشائیے سے فارغ ہوکر میں واپس پہنچا تو پولیس اسکارٹ کی گاڑی آچکی تھی جو مجھے سی سی پی او ہاؤس لے گئی۔
وہاں پہنچا تو کوئٹہ میں تعیّنات تقریباً سارے افسران موجود تھے۔ چائے پر ان سے گپ شپ ہوتی رہی۔ میں انھیں اپنی سروس کے وہ واقعات سناتا رہا ، جب مجھے اُن مقامات پر تعیّنات کیا گیا جہاں دہشت گردی زوروں پر تھی۔ میں نے انھیں بتایا کہ ''میں نے سردیوں کا موسم ایبٹ آباد میں گزارا اور جب موسم بدل رہا تھا اور ایبٹ آباد کے موسم سے لطف اندوز ہونے کا وقت آیا تو مجھے چیف منسٹر کے سیکریٹری کا فون آیا کہ کل صبح دس بجے سی ایم صاحب نے بلایا ہے، میں صبح پشاور پہنچا تو چیف منسٹر صاحب نے جاتے ہی ''خوشخبری'' سنائی کہ ڈیرہ اسمعیل خان کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔
پولیس والے ڈر کے مارے وردی نہیں پہنتے اور سرکاری گاڑی میں نہیں پھرتے، اس لیے ہم نے رات کو میٹنگ کی ہے، آئی جی اور چیف سیکریٹری نے بھی اور میں نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو دوبارہ ڈیرہ اسمعیل خان بھیجا جائے''۔ بجلی کا کرنٹ لگنے پر ہر شخص کا ردّ ِ عمل ہوتا ہے، میر ابھی اسی طرح کا ردّ ِ عمل تھا، میں نے اس کا اظہار بھی کیا مگر دو یا تین منٹ کے بعد میں اس Initial Shock سے باہر نکل آیا اور میں نے سوچا کہ جب وردی پہن لی ہے توپھرمشکل محاذ پر بھی جاناپڑتا ہے۔
لہٰذا میں پورے جوش اور جذبے کے ساتھ ڈیرہ گیا اور پوری یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف دن رات کام کیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے سرخرو کیااور چار مہینوں بعد وزیرِاعلیٰ نے پریس کانفرنس کرکے ہماری پوری ٹیم کو مبارکباد دی۔
پولیس افسروں کے ساتھ رات گئے تک بات چیت چلتی رہی اور میں انھیں یونیفارم کے تقدّس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بتاتا رہا ، انھوں نے گوادر، تربت اور پنجگور میں دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں نئی معلومات فراہم کیں۔ عسکری حکام کو چاہیے کہ ایکشن پلان ترتیب دینے سے پہلے اظفر جیسے زیرک پولیس افسروں سے ضرور مشاورت کیا کریں، وہ انتہائی مفید تجاویز دیں گے۔