شادی اور جاہلانہ رسم و رواج

تم میں جو نکاح کی قدرت رکھے وہ نکاح کرلے کیوں کہ نکاح نگاہ کو پست رکھتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے


فوٹو : فائل

نکاح عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ملانا اور جوڑنا ہے۔ جیسے دو چیزوں کو جوڑ کر ملادیا جائے، اسی سے اس کا اصطلاحی مطلب بھی اخد ہوتا ہے کہ ایک مرد اور عورت جو باہم زوجین بن کر زندگی گزارنے کے لیے تیار ہیں انہیں اس طرح جوڑ دیا جائے کہ وہ ایک مضبوط بندھن میں بندھ جائیں۔

اﷲ تعالیٰ نے یہ ایک ایسا تعلق بنایا ہے کہ دو علاحدہ رہنے والے اور بعض اوقات ایک دوسرے سے بالکل ناواقف مرد و عورت جنہوں نے شاید ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہوتا وہ نکا ح کے بعد پوری زندگی کے لیے ایک دوسرے کے شریک بن جاتے ہیں۔

شریعت انہیں ایک دوسرے کا وارث بنا دیتی ہے، اور پھر اولا د کا تو ایسا تعلق ہے جو حضرت آدم علیہ السلام اور اما ں حواؑ سے لے کر آج تک قائم ہے اور آخرت کے دن بھی خدائی عدالت اسی نسبت سے ہی انسان کو پکارے گی۔ نکا ح کرنے والے کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ نکاح کرتے وقت سنت پر عمل اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی نیّت کرے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

''اے نوجوانو! تم میں جو نکاح کی قدرت رکھے وہ نکاح کرلے کیوں کہ نکاح نگاہ کو پست رکھتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، اور جو نکاح کی استطاعت نہ رکھے وہ روزہ رکھا کرے، کیوں کہ روزہ اس کی شہوت کو توڑ دے گا۔''

حضور بنی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

''سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو اور سادگی ہو۔'' (مشکوٰۃ)

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ پر زرد رنگ کا اثر دیکھا تو فرمایا، مفہوم: ''یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نکاح کیا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تمہیں برکت دے، اب ولیمہ کرو، اگرچہ ایک بکری ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔'' (بخاری)

مذکورہ روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے شادی اور نکاح کرلینے کے بعد حضور ﷺ نے شادی کے موقع پر مدعو نہ کرنے کی شکایت کی اور نہ مدعو کرنے پر عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی۔ چوں کہ نکا ح اور ولیمے کی تقاریب حضرات صحابہ کرامؓ کے پاس نہایت سادگی کے ساتھ انجام دی جاتی تھی۔

دعوت کا نہ دینا یا شرکت نہ کرنا یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ اس پر ناراضی کا اظہار کیا جائے یا رشتے ناتے کی دہائی دے کر ہنگامے کیے جائیں۔

آج کے دور میں جتنا اہتمام نکا ح کے موقع پر سنتوں کے قائم کرنے کا نہیں کیا جاتا ہے، اس سے کہیں زیادہ فکر بڑی دنیا دار شخصیتوں کو مدعو کرنے کے حوالے سے کیا جاتا ہے، حالاں کہ برکت اعمال کے ساتھ ہے، اگر ہوسکے تو غریبوں اور مسکینوں کو بھی ولیمہ کی دعوت میں مدعو کیا جائے۔

حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

''بدترین کھانا اس ولیمے کا کھانا ہوتا ہے جس میں مال داروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔'' (بخاری )

موجودہ زمانے کی شادیوں میں بے شما ر بے جا اور جاہلانہ رسومات اور گناہ شامل ہو چکے ہیں، یہ گناہ ناصرف اخروی تباہی و بربادی کا سبب ہیں بلکہ ان فضولیات کی وجہ سے دنیاوی زندگی بھی اجیرن ہوگی ہے۔

ان بے جا رسومات اور فضول کاموں کے لیے آدمی کو زندگی بھر کی پونجی کو اس کے پیچھے لگادینا پڑ جاتا ہے، بلکہ قرض وغیرہ لے کر اپنے آپ کو اور زیادہ مشکلوں میں ڈالنا پڑتا ہے۔ بے جا اخراجات میں پیسہ اُڑانے سے بہتر ہے کہ وہی پیسہ بچا کر اپنی بیٹی کو دے دو، داماد کو دے دو، مسجد میں دری بچھوا دو، کسی طالب علم کا خرچ برداشت کرلو، کسی مریض کا علاج کرالو۔

جب سے ہمارا معاشرہ شادی بیاہ کے موقع پر خرافات اور تکلفات میں مبتلا ہُوا ہے، اس وقت سے مقروض ہونے، سودی قرض اور رشوت لینے جیسی برائیوں میں مبتلا ہوگیا ہے اور ان برائیوں کی جڑ یہی فضول خرچی اور اسراف ہے، حالاں کہ شریعت نے اسراف و فضول خرچی کو ناپسند فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:

''اسراف مت کرو۔ بے شک! اﷲتعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔'' (الاعراف) شادیوں میں ایک خرابی اور گناہ یہ بھی ہے کہ اس میں حقوق العباد کی رعایت نہیں ہو پاتی۔ ناچ گانا اور آتش بازی کی اس قدر گھن گرج اور آواز ہوتی ہے کہ دوسروں کا جینا دُوبھر ہوجاتا ہے، رات کے اوقات میں نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، بوڑھے، بیمار، بچے اور مجبوروں کا چین و سکون غار ت ہوجاتا ہے۔

آتش بازی میں ناصرف مال بلکہ بعض اوقات اس آتش بازی کی وجہ سے گھر یا دکا ن کو آگ لگ جاتی ہے جس سے جانیں و مالی دونوں نقصان ہوتے ہیں، اسی طرح شادی کے موقع پر فائرنگ کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے۔

آئے دن سننے کو ملتا ہے کہ شادی کے موقع پر فائرنگ ہونے سے باراتیوں یا محلے میں سے کسی کو گولی لگ گئی وہ ہلاک یا زخمی ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں اچھی خاصی خوشی غمی میں بدل جاتی ہے۔ شادی میں آتش بازی جلا کر اپنے سرمائے کو برباد نہ کیا جائے۔ جب نکاح کی برکت کم خرچ اور سادگی میں ہے تو امت برکت کیوں نہیں لیتی، کیوں زیادہ خرچ کرکے نام و نمود کرکے برکت سے محروم ہوتی ہے۔

اسلام نے ہر نکا ح کرنے والے شخص کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ نکاح سے قبل اپنی منگیتر کو بس اک نظر دیکھ سکتا ہے۔

رسول اﷲ ﷺ نے بھی نکاح کرنے والے مختلف صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ وہ شادی سے قبل اپنی ہونے والی بیوی کو ایک نظر دیکھ لیں، جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ ُاﷲ تعالیٰ علیہ نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تم میں سے جو کوئی کسی عورت کو شادی کا پیغام بھیجنا چاہتا ہو تو اگر وہ اس (عورت) کو دیکھ لے تو کوئی حرج والی بات نہیں اگرچہ اس عورت کو علم نہ ہوسکے۔''

یاد رہے کہ دیکھنے کی صورت یہ ہے کہ اگر ممکن ہوتو منگیتر کو ایک نظر اس طرح دیکھ لے کہ اس کو علم نہ ہوسکے یا پھر اس کے گھر والوں کی موجودی میں ایک نظر دیکھ لیا جائے، رہا آج کل کا طریقہ کا ر کہ منگنی کا بہانہ بنا کر لڑکے کے عزیز واقارب کی موجودی میں لڑکی کو لایا جاتا ہے اور لڑکے کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا جاتا ہے یا پھر غیر محرم افراد کی موجودی میں لڑکی کو پیش کیا جاتا ہے ، یا پھر نکاح سے قبل اور منگنی کے بعد لڑکا لڑکی گھومنے چلے جاتے ہیں یہ تمام خلاف شریعت ہیں۔ کوئی بھی غیرت مند آدمی اس کی اجازت نہیں دے سکتا، نہ ہی یہ طریقہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے اور نہ ہی قابل تحسین عمل ہے۔

ہمیں اسلام کے اصولوں کے مطابق شادی بیاہ کو انجام دینا چاہیے اور اس کی برکات سمیٹنا چاہیے۔ ہمیں فضول رسومات اور جاہلانہ طور طریقوں سے اجتناب برتنا چاہیے کہ اسی میں دنیا اور عاقبت کی بھلائی ہے۔

اﷲ تعالی ہمیں اسلام پر کامل عمل پیرا ہونے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔