یہ ملک رہنے کے لائق رہنے دیں
لوئر مڈل کلاس اور غریب عوام کی بے چارگی اور غم و غصے کا کیا عالم ہوگا
میں آپ سے ایک بہت ضروری مشورہ کرنا چاہتا ہوں، آپ اس عمل سے گزر چکے ہیں اس لیے میری مشکل سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے دوست انجینئرانیس احمد نے گفتگو کی تمہید باندھی ۔ جی ضرور ، کیوں نہیں۔ آپ بتائیں ، مسئلہ کیا ہے؟ ہم نے جواب دیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ میرے دونوں بیٹے اس وقت اے لیول کر رہے ہیں، ایک اے ون میں ہے اور دوسرا اے ٹو میں۔ دونوں کا اصرار ہے کہ گریجوئیشن کے لیے امریکا بھیجیں۔
آپ کو تو پتہ ہے کہ پچھلے سال ہم نے گرین کارڈ لے لیا تھا، بیٹوں کو داخلہ بھی مل جائے گا اور اسٹیٹ یونی ورسٹی کی فیسوں میں رعایت بھی۔ یہاں اب حالات رہنے کے لائق رہے نہیں۔ انصاف ہے نہ میرٹ، کرپشن کے بغیر کام نہیں چلتا ، سفارش کے بغیر نوکری نہیں ملتی۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ ملک اب رہنے لائق نہیں ہے؛ انھوں نے ایک ہی سانس میں اپنی الجھن ہمارے سامنے رکھ دی۔
ہمارے دوست کی فیملی میں سے بہت سے افراد دوسری نسل سے امریکا میں مقیم ہیں۔ بیشتر زراعت، پولٹری فارمنگ اور کچھ ملازمت سے منسلک ہیں۔ تین سال قبل امریکا کے شہر اٹلانٹا جانے کا موقع ملا تو ان کے ایک قریبی عزیز کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔
خاصے پوش علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ گھر کے ماحول میں مذہبی رنگ نمایاں دکھائی دیا۔ ایک بیٹا حافظ قرآن تھا، گھر پربا جماعت نماز اور رمضان میں تراویح کا اہتمام ہوتا ۔ بیٹے جارجیا اسٹیٹ یونی ورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے۔
ایک نے آئی ٹی میں گریجوایشن کی اور ایک بڑی کمپنی میں پرکشش مشاہرے پر ملازم تھا۔ دوسرا بیٹا اُس وقت آخری سال میں تھا، غالباً انجینئرنگ کا اسٹوڈنٹ تھا۔ والد خود ایک معروف کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ نقل مکانی کرکے جانے والے خاندان کے لیے ہر اعتبار سے آئیڈیل سماجی مرتبے اور آسودگی کا سامان تھا۔
ہمارے ان دوست کو بیس بائیس سال قبل ان کی امریکا مقیم فیملی نے بہت اصرار کیا کہ وہ وہاں منتقل ہو جائیں، سپانسرشپ کی موجودگی میں ان کا ورک ویزہ اور گرین کارڈ بہت آسانی سے ممکن تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ خاندان کے چالیس سے زائد افراد نزدیکی ریاستوں میں ویل سیٹل تھے، ان تمام پرکشش مواقع کے باوجود انھوں نے فیصلہ کیا کہ اپنا ملک اپنا ہے، خاصی معقول جاب ہے۔ والدہ حیات ہیں، ان سے گاؤں ہر ماہ ملنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ایک بھائی بھی گاؤں میں زمینداری کرتا ہے۔ اللہ کا کرم ہے اچھی گزر بسر ہو رہی ہے۔ امریکا کی زندگی کا مشاہدہ کر آئے تھے، انسان کولہو کے بیل کی طرح ہر وقت جُتا رہتا ہے۔ سہولتیں اور آسانیاں تو ہیں مگر زندگی ایک مشین کی طرح ہر آن اپنی روٹین پر کاربند ہے۔
سوچ سمجھ کر فیملی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا، انھیں حیرت ہوئی کہ لوگ امریکا منتقل ہونے کے لیے سو سو جتن کرتے ہیں، سمجھے کہ شاید دماغ خراب ہے لیکن یہ اپنے فیصلے سے مطمئن تھے۔
بیس بائیس سال فاسٹ فارورڈ؛ اب وہی دوست پاکستان میںاپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ ہم نے ان سے پوچھا۔ کمال کرتے ہیں آپ، پریشان کیوں نہ ہوں؟ ملک ڈیفالٹ ہو رہا ہے۔ ڈالر مارکیٹ میں مل نہیں رہا۔ جس دن اسحاق ڈار کی گرفت ڈھیلی ہوئی ، آپ دیکھیے گا ڈالر ٹھک سے 260 یا شاید270 تک جا پہنچے گا۔
سوچیں ، مہنگائی کا کتنا بڑا طوفان اٹھے گا۔ دوسری طرف فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، بے روزگاری عام ہے۔ اتنی مہنگی پڑھائی کے بعد بچوں کو نوکری کہاں سے ملے گی اگر فیکٹریاں ہی بند ہو رہی ہیں۔اوپر سے کم بخت یہ سیاست، تیس سال ہو گئے دیکھتے دیکھتے مگر وہی مارا ماری ہے۔ ملک کا کون سوچتا ہے، ہر سیاست دان کو اپنی پڑی ہے۔ میرے جاننے والے کم از کم آدھی درجن لوگ باہر جا چکے ہیں ، کوئی کینیڈا ، کوئی امریکا، کوئی یورپ۔
وہ سانس لینے رکے تو ہم نے انھیں ریلیکس کرنے کی کوشش کی ۔ اپنے تئیں جو مناسب لگا، مشورہ بھی دیا لیکن ایک سوال بار بار ذہن کو کچوکے لگاتا رہا ہے، بیس سال قبل اس ملک کے بارے ان کی امید میں اتنا دم تھا کہ انھوں نے فیملی کی مخالفت کے باوجود امریکا شفٹ ہونے کے بجائے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا لیکن بیس بائیس سال بعد اب یہ امید کمزور پڑ گئی ہے۔کیوں؟
ایک انیس احمد ہی کیا، ایک عام پڑھا لکھا آدمی جو تھوڑا بہت حالات کا ادراک رکھتا ہے ، وہ ملکی حالات کے بارے میں ہر گزرتے سال مزید مایوسی کا شکار ہورہا ہے۔
اور کیوں نہ ہو؟ پنجاب میں لگے سیاسی اکھاڑے کو ہی لیں۔ پی ٹی آئی اسمبلی توڑنے کی تاریخیں دے رہی تھی تو اسے صبح شام طعنے اور کوسنے دیے جاتے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ، اب اگر پی ٹی آئی برسنے پر آمادہ ہے تو گورنر ہاؤس سے اسلام آباد تک ن لیگ کی سانس پھولی ہوئی ہے۔
وزیر اعلیٰ کو ڈی سیٹ کرنے ، گورنر راج اور عدم اعتماد سمیت ہر گھوڑا میدان میں ہے۔ میڈیا پر اس کے سوا کسی اور موضوع کو لفٹ ہی نہیں۔ اسی دوران اکونومی کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو فقط الزام تراشی میں مصالحہ تیز کرنے کے لیے ۔ کٹھور پن کا یہ عالم ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کو بھی سیاسی الزامی عینک سے ہی دیکھا جا رہا ہے۔
سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ ڈار اکنامکس ملک کو ڈیفالٹ سے بچا پائے گی؟ مالی استحکام کا بندوبست کر پائے گی؟ پی ٹی آئی کا ایڈوینچر کہاں منتج ہوگا؟ الیکشن ہو ئے بھی تو کیا نتائج قابل اعتماد سمجھے جائیں گے؟ بال بال قرض میں جکڑے ملک کے پاس آزادانہ معاشی اور سیاسی فیصلے کرنے کی سپیس اور صلاحیت ہو گی؟ سیاست دانوں کو اپنی لڑائی اور مفاداتی ہذیان میں شاید اندازہ ہی نہیں کہ عوام کی امید اس ملک اور نظام سے ٹوٹ رہی ہے۔
مڈل کلاس کے انیس احمد کو اگر یہ مشکل درپیش ہے تو اندازہ کیجیے کہ لوئر مڈل کلاس اور غریب عوام کی بے چارگی اور غم و غصے کا کیا عالم ہوگا ۔ خدارا اس ملک پر رحم کریں ، اس ملک کو اس کے باسیوں کے رہنے کے لائق رہنے دیں۔