اے اللہ ہمارے ملک پر رحم فرمائیے

گیس اور بجلی کے بلوں نے بھی عوام کے رہے سہے حوصلے پر ضرب لگائی ہے


Naseem Anjum December 25, 2022
[email protected]

ہوس، لالچ، بددیانتی، اقربا پروری اور دولت کی طلب نے آج کے مسلمان خصوصاً پاکستانیوں کو دین سے دور کردیا ہے، بے حیائی اور فحاشی عروج پر ہے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں، مذہب نے کیا احکامات دیے ہیں اس کا بھی قطعی احساس نہیں۔

عذاب مختلف شکلوں میں آ کر اس بات کی تنبیہ کر رہا ہے کہ اب بھی سدھر جاؤ، ورنہ گز بھر زمین کو ترسو گے۔ ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں جب کورونا آیا تو چین، جاپان، امریکا میں لاشیں ٹرک میں بھر کر جاتی تھیں اور ایک ہی گڑھے میں پھینک دی جاتی تھیں، کسی کو نہیں معلوم، کس کی قبر ہے ؟ پھر بھی عقل نے ساتھ نہیں دیا۔ تعیشات زندگی میں اپنے آپ کو مست رکھا۔

آج غربت و افلاس نے مفلوک الحال اور قرض داروں کو خود کشی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کی وجہ ملک میں ناانصافی اور مال و زر کی طلب زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ٹیکس اور گرانی نے زندگیاں نگل لی ہیں بااختیار لوگوں کو ملک کے باسیوں کی قطعی پرواہ نہیں ہے، ملک کی ترقی اور خوشحالی ان کا مسئلہ بالکل نہیں ہے۔ اس وقت مجھے جاپان کی مثال یاد آگئی ہے، جاپانی اپنی سخت محنت، دیانت، اخلاقیات کی وجہ سے پوری دنیا میں مثال بنے ہوئے ہیں۔

ایک ہم ہیں جن کے حصے میں ذلت، غربت، دکھ درد آئے ہیں۔ اس کی وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ حکمرانوں کی نااہلی اور اقربا پروری ہے لیکن اس کے برعکس اسی ملک میں ایسے خدا ترس لوگ بھی بستے ہیں جو اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں اور راہ چلتے مسافروں کی مدد کرتے ہیں، بیماروں کا علاج اور تیمار داری کا فریضہ انجام دیتے ہیں، مستحقین کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور انھیں موسموں کی سختی سے بچانے کے لیے ہر لمحہ کوشاں رہتے ہیں۔ بے شک وہی اللہ کے نیک بندے ہیں جنھوں نے پچھلے واقعات سے سبق سیکھا۔

ہمارے پاکستان کے سرکردہ لوگوں نے عالیشان محل بنائے، قیمتی گاڑیاں اور دولت کے انبار لگا لیے یہ سوچے بنا کہ زندگی کتنی ہے؟ یہ بات تو شداد نے بھی نہیں سوچی تھی اور اس نے آخرت کی کامیابی اور جنت کے حصول کو دنیا پر ترجیح دی، اسے بہت سے لوگوں نے سمجھایا۔

حضرت ہود علیہ السلام کے سمجھانے پر بھی وہ راہ حق پر نہ آیا۔ یہ بات اس کی عقل سے باہر تھی کہ یہ حکومت، دولت، روپیہ پیسہ فانی ہے، جب کہ اللہ کی اطاعت میں جنت اور اس کی آرائش و زینت سن کر وہ بولا کہ ایسی جنت تو میں زمین پر بنا سکتا ہوں چنانچہ اس نے سونے کی اینٹوں، جواہرات سے شہر تعمیر کیا اور دیکھنے کی خواہش لیے وہاں پہنچا تو اس نے ایک شخص کو کھڑا پایا۔ شداد بولا، تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں ملک الموت ہوں اور تیری روح قبض کرنے آیا ہوں، شداد نے کہا کہ تو مجھ کو اتنی مہلت دے دے کہ میں اپنی بنائی ہوئی جنت کو تو دیکھ لوں۔

جواب ملا، مجھ کو اجازت نہیں۔ چلو تو پھر اتنی ہی اجازت دے دو کہ میں گھوڑے سے اتر آؤں۔ جواب ملا، ہرگز نہیں، ابھی شداد کا ایک پیر رکاب میں ہی تھا اور دوسرا چوکھٹ پر کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اتنی زور سے ایک ہولناک چیخ ماری کہ اسی وقت پورا شہر مع اپنی سجاوٹوں کے ایسا زمین میں سمایا کہ اس کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ اس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ سچا مسلمان وہی ہے جو قرآن پاک کے احکام پر عمل کرتا ہے اور سنت نبویؐ کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔

اس نفسا نفسی اور مادہ پرستی کے دور میں کئی اسپتال، اسکول اور فلاحی ادارے ایسے ہیں جنھیں مخیر حضرات ثواب کی نیت سے چلا رہے ہیں بغیر کسی فیس کے۔ امرا اور غربا میں کسی قسم کی تخصیص نہیں، اس کی بہترین مثال شوکت خانم اسپتال ہے، عمران خان پر گھڑی کا الزام ایک مضحکہ خیز بات ہے جس شخص کے ٹیلی تھون پر کروڑوں روپے جمع ہو جائیں، اربوں دیے جائیں تو اس کے آگے گھڑی کی کیا اوقات ہے۔

عمران خان نے اپنے عمل سے علما دانشور، مفتیان دین اور سربراہان مملکت کا دل جیت لیا ہے، یہ عزت اسے اللہ نے دی ہے۔ نیک نامی، دیانت داری اس کی شناخت بن چکی ہے۔ توشہ خانے کی تاریخ سامنے آ رہی ہے، جن جن لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے وہ اپنے ہاتھوں سمیت اپنے کارناموں اور تعیشات زندگی کے ساتھ ظاہر ہو چکے ہیں۔

اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی عجیب ریت ہے۔ اسلام کی تعلیمات دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں بلکہ لوگ اپنے بچوں کا نام ضرور گزشتہ دہائیوں میں رکھ چکے ہیں۔ شیخ محمد اسلام، اسلام الدین، اسلام اللہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب حالات ایسے ہیں ''اسلام'' نام لوگ کم ہی رکھتے ہیں۔

چونکہ مسلمان اور اسلام کو اسلام کے دشمنوں نے دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی ہے جوکہ ان کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ سچ کا سورج سوا نیزے پر ہے لیکن لوگ ماننے کے لیے تیار نہیں، اپنی طاقت کے زور پر ''جھوٹ'' کو اپنا کر اس کی پرستش کر رہے ہیں۔ اپنے انجام کو بھول کر ذلت اور بدنامی کی پرواہ کیے بغیر۔

اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ محض اقتدار اور ہوس زر کی تمنا جب حد سے بڑھ جائے تو متمنی وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جس کی اخلاق اور انسانیت اجازت نہیں دیتی ہے وہ اس بات کو یکسر فراموش کر دیتا ہے کہ ایک دن زر و جواہر اور مال و اسباب اسی بے ثبات دنیا میں چھوڑ جائے گا، ایک زمین کا ٹکڑا ہی اس کے حصے میں آئے گا اور بعض اوقات وہ بھی میسر نہیں آتا ہے۔

بات غربت، معاشی تنگدستی اور اسپتالوں کی ہو رہی تھی ، تو عرض یہ کرنا ہے کہ جماعت اسلامی یعنی الخدمت نے بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور وہ بھلائی کے کام کرتے ہی رہتے ہیں۔ گلستان جوہر غالباً بلاک 12 میں ایک بہت بڑا آنکھوں کا مفت اسپتال مریضوں کی بلاتخصیص خدمت انجام دے رہا ہے۔

پابندی سے علاج اور موتیا کے آپریشن ہوتے ہیں، اس مہنگائی کے زمانے میں کیا امیر کیا غریب سب ہی استفادہ کر رہے ہیں، مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے، ماہانہ تنخواہ اور اجرت میں اضافہ نہیں ہوتا، اس کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے۔

آج ملک دیوالیہ ہونے کے بالکل قریب ہے، اہل اقتدار اور دوسرے اہم اداروں کے سربراہان اگر اپنے وطن سے مخلص ہیں اور محبت کرتے ہیں تو ان کا فرض ہے اپنی جمع شدہ رقم سے ملک کو بچا کر تاریخ رقم کردیں۔ ان کا نام سنہرے حروف سے پاکستان کی تاریخ میں لکھا جائے گا، جو تا قیامت زندہ سلامت رہے گا اور ہو سکتا ہے اللہ ان کے اس عمل سے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ سودا گھاٹے کا ہرگز نہیں ہے۔

گیس اور بجلی کے بلوں نے بھی عوام کے رہے سہے حوصلے پر ضرب لگائی ہے۔ کتنے علاقے ایسے ہیں جو پتھر کے زمانے میں چلے گئے ہیں، گیس کے چولہے ان کا منہ چڑانے کا باعث ہیں اور وہ ایندھن کی تلاش میں سرگرداں۔ رحم کریں اپنے ملک پر!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں