مہنگائی پر قابو پایا جائے
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ماتحت پرائس کنٹرول کے ادارے اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے مرتکب ہورہے ہیں
ہمارے لیڈر، روزانہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے سیاسی بیانات دیتے رہتے ہیں ، قوم اب ان سے بے زار ہو چکی ہے، ان سیاسی حضرات کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے، سنجیدگی سے کوئی کام کرنے کو تیار نہیں، بس ان کی جان اسمبلیوں میں اٹکی رہتی ہے کہ مراعات کا سلسلہ چلتا رہے۔
اقتدار کا بھی ایک اپنا نشہ ہے مگر آپ یقین کریں کسی دن بھی کوئی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے قوم کے مسائل کی ٹرین جو ان سیاسی حضرات نے پٹری سے اتار دی ہے، اسے دوبارہ کون پٹری پر چڑھائے گا یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قوم سوچ میں مبتلا ہے کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا اور سیاسی حضرات قوم کے بارے میں سنجیدگی سے کب سوچیں گے؟
مہنگائی کے مسائل جوں کے توں ہیں، چاروں صوبوں میں مہنگائی کا طوفان آگیا ہے، کوئی پرسان حال نہیں۔ جنھیں مہنگائی کو ختم یا کم کرنے کے بارے میں سوچنا ہے اور اس پر عمل کروانا ہے، ان کا تعلق مراعات یافتہ طبقات سے ہے ،لہذا انھیں غریب یا متوسط طبقے کے مسائل سے کیا لینا دینا؟ روز حکومتی وزیروں مشیروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ، مسائل حل کیے بغیر یہ اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ سمجھ سے بالا تر ہے۔
لاقانونیت نے عوام کی زندگی عذاب کردی ہے، روز نوجوان، راہزنوں کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں، خبریں اخبارات میں شایع ہوتی ہیں،خبر کی تفصیلات پڑھ کر دل گرفتہ ہوجاتا ہے ، ہردردمند دل رکھنے والے شہری کی آنکھ سے یہ سوچ کر آنسو نکل پڑتے ہیں کہ ایک اورگھر کاچراغ روشنی دینے سے قبل بجھا دیا گیا، وہ بھی صرف چند ہزار کے ایک موبائل چھیننے کی خاطر۔
ہمارے سرکاری اداروں کے سربراہ یورپ کی مثال دیتے ہیں، اس ملک میں تو ایسے بھی لوگ رہتے ہیں جو کراچی میں رہتے ہیں، انھوں نے کبھی پنڈی نہیں دیکھا، جو گجرات میں رہتا ہے، اس نے کبھی اسلام آباد نہیں دیکھا، جب کہ ہمارے بیور وکریٹ اور سیاستدان اس ملک میں مسائل کے حوالے سے یورپ کی مثالیں دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دیا ہے ،غیر تعلیم یافتہ شخص بھی اب شعور کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے مگر ہمارے افسران اور سیاسی لوگ اسے مذاق سمجھ رہے ہیں ان کی پہلی آخری غلط فہمی ہے انھیں پتا نہیں قوم کتنی باشعور ہوچکی ہے بس یہ سب اپنی انا اور مستی میں مست ہیں۔
ہماری ہر حکومت قرض ملنے پر خوش ہوتی ہے، سمجھتی ہے کہ بڑا تیر مار لیا، مہنگائی کی جب بات ہوتی ہے توالزام آئی ایم ایف پر لگا دیا جاتا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی وزراء کی مراعات اور سیاسی شاہ خرچیوں پر آئی ایم ایف کیوں نہیں بولتا، اگر یہی حالات رہے تو مزید 15 سال ابھی یہ چورن اور بکے گا اگر کوئی رب کا سپاہی آ گیا تو یہ چورن صرف ایک سال کے بعد ہی بند ہو جائے گا۔
ہم تنقید تو اصلاح کے طور پر کرسکتے ہیں مگر اصلاح کب ہوگی یہ میرے رب کو معلوم ہے۔ مگر جلد ہوگی ۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی لیڈر اور پارٹی کا سربراہ قوم سے بالکل سنجیدہ نہیں ہے ۔اسی چیز نے قوم کو مسائل کے بھنور میں دھکیل دیا ہے اور وہ مہنگائی کے ہاتھوں عاجز آچکے ہیں۔ آٹے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا ہے۔
بجلی کے بلوں کی ادائیگی ایک عام آدمی کے لیے مشکل ہوگئی ہے، کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں ایک جاننے والے سبزی منڈی گئے، کراچی کی سبزی منڈی ایشیا کی بڑی منڈیوں میں شمار ہوتی ہے، منافع خوروں کو دیکھیں جنھوں نے خودساختہ ریٹ بڑھا دیے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اعلیٰ افسران جو پرائس کنٹرول سے وابستہ ہیں وہ سبزی منڈی کا دورہ کیوں نہیں کرتے؟ کہاں ہیں ہمارے ادارے ؟سبزی بیچنے والے عوام کو کیسے لوٹ رہے ہیں؟
آئیے! آپ کو سبزی منڈی کراچی کے حوالے سے ایک سروے بتاتا ہوں۔ سبزی منڈی سے شہر کاکرایہ 900 روپے ہوتا ہے، اس میں 3 افراد جو سبزی فروخت کرتے ہیں ،ان کا مال ہوتا ہے یعنی کرایہ 300 روپے فی فرد، جو ٹھیلا سبزی کا لگاتا ہے اس کی سبزیوں کی قیمت کچھ یوں ہے۔
سبزی منڈی سے لا کر ٹھیلے والا جو فروخت کر رہا ہے سبزی منڈی کی قیمت شلجم 40 روپے بازار 100 روپے، ٹماٹر15 روپے، بازار 60 روپے، بھنڈی اچھی160 روپے، بازار 60 روپے پاؤ، ہری مرچ 25 روپے کلو، بازار 30 روپے پاؤ، پالک 20 روپے بازار ایک گڈی 15 روپے، پودینا 4 روپے بازار 10 اور 15 روپے، ترئی 30 روپے بازار 100 روپے، چقندر 20 روپے بازار 100 روپے، بینگن 15 روپے بازار 80 روپے، لوکی اچھی 25 روپے بازار 80 روپے، سندھی ہری مرچ 25 روپے بازار 40 روپے پاؤ ، مولی اچھی 15 روپے بازار 50 روپے، ادرک کلو 260 روپے بازار 100 روپے پاؤ، پتوں والے چقندر 25 روپے کلو، بازار 100 روپے، لہسن 260 روپے، بازار 100 روپے پاؤ، لیموں 60 روپے کلو بازار 80 روپے پاؤ۔ یہ ریٹ تو ٹھیلے والوں کے ہیں اور جو KMC کی بالکل چھوٹی دکان ہے، 6بائی 6 کی مگر اس نے روڈ پر30 بائی 30 کا قبضہ کر رکھا ہے۔
سروے کے مطابق دکاندار ہر سبزی پر 50 سے 100 روپے اوپر منافع رکھ کر سبزی فروخت کررہاہے۔ اس سے زیادہ اور کیا تفصیل اپنے قارئین کو بتاؤں۔ کہاں ہیں پرائس کنٹرول والے؟ کیوں نہیں ان داداگیروں سے باز پرس ہوتی؟ ٹھیلے والا بھی ایک ناکارہ سسٹم کے تحت من مانی قیمتوں پر سبزیاں فروخت کررہا ہے۔ قوم بہت تکلیف میں ہے، کوئی پرسان حال نہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ماتحت پرائس کنٹرول کے ادارے اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے مرتکب ہورہے ہیں ، جمہوریت میں جمہور کا خیال رکھنا ضروری ہے لہذا تمام صوبائی حکومتوں مہنگائی کم کرنے کی غرض اپنے ماتحت اداروں کو فعال کرنا چاہیے تاکہ وہ مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔