ٹھکرائے ہوئے لوگ اور ادیب کا قلم
اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک محرومی و افلاس کی زندگی سے کتنے لوگوں کو نجات دلاسکیں گے
تیسری دنیا کی بات تو ایک طرف رہی، پہلی دنیا بھی ابھی تک غربت سے دامن نہیں چھڑاسکی ہے۔ دولت کی اس غیرمنصفانہ تقسیم کے خلاف ایک بہت بڑی لڑائی دنیا کے ادیبوں نے لڑی ہے اور آج بھی وہ اس لڑائی میں پیش پیش ہیں۔
اردوادب میں غریبوں کے حقوق کی لڑائی ترقی پسند ادیبوں نے بطور خاص لڑی اور عصمت چغتائی، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی اس لڑائی میں پیش پیش رہے۔ شوکت صدیقی کا ناول ''خدا کی بستی'' تو صرف غربت اور غریبوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک دوسرا اہم نام حمید کاشمیری کا ہے جنہوں نے ان کی کہانیاں لکھیں جو سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگ ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی ایک افسانہ نگار کے طور پر شروع کی اور اس کے بعد وہ ٹیلیویژن ڈراموںکے میدان میں اترے اور اپنے قلم سے ان لوگوں کی لڑائی لڑی جن کے پیروں کے نیچے زمین نہیں، جن کے سروں پر آسمان نہیں۔
بے پناہ اور ناقابل برداشت غربت کے حوالے سے اس وقت حمید کاشمیری یاد آرہے ہیں کیونکہ ان کا قلم کئی دہائیوں تک دولت کے ارتکاز، غربت اور ظلم کے خلاف جہاد میں مصروف رہا تھا۔
ان کے بارے میں ثروت سلطانہ نے درست لکھا ہے کہ ان کے ڈرامے کڑی دھوپ میں سایہ دار درخت ہیں۔ تنگ و تاریک حبس زدہ ماحول میں ہوا کا ایسا خوشگوار اور تازہ ہوا کا جھونکا تھا جو ذہن کو تازگی کے ساتھ ساتھ زندگی کی نوید بھی دیتے ہیں، وہ اپنے ڈرامے کے پس پردہ ایسے سماج کی تشکیل چاہتے ہیں جہاں انسانیت زخم زخم نہ ہو۔
جہاں زندگی کو وبال اور جرم نہ سمجھا جائے، جہاں غریبوں اور کمزوروں کو نفرت اور حقارت کی آگ میں نہ دھکیلا جائے، جہاں ہر طرف پھول کھلتے ہوں، رواداری کے پھول، محبتوں کے پھول، مساوات کے پھول، بھائی چارے کے پھول، سماجی عدل کی فراوانی کے پھول تاکہ سماج ایک حسین گلستان بن جائے، قوم ایک اکائی نظر آئے تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔
غربت، بھوک اور افلاس کے بارے میں حمید کاشمیری نے اپنے ایک کردار سے کہلوایا ہے کہ ''اس وقت بظاہر پاکستان کا یا اور ملکوں کا مسئلہ روٹی نہیں ہے لیکن یہ کلیہ نہیں یک سطحی نظریہ ہے۔ بادیٔ النظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستانیوں کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور روٹی ان کا مسئلہ نہیں۔ مسئلہ روٹی سے آگے کا ہے۔ مسئلہ مکان کا ہے، اگر چھوٹا مکان ہے تو پھر بڑا مکان چاہیے۔ مکان کی آسائش و آرائش ہے۔ مسئلہ ٹی وی، وی سی آر، کپڑے دھونے کی مشین اور ڈیک کا ہے۔''
قاضی صاحب رکے اور پھر بولنے لگے ''مسئلہ کار کا ہے۔ پھر اچھی اور نئی کار کا ہے۔ پھر مسئلہ مہنگی کار کا ہے۔ مرسٹڈیز اور پجیرو کا پھر شاید ہیلی کاپٹر کی طرف بھی نگاہ جاتی ہے۔ بچوں کے لیے سوئمنگ پول لازمی ہونا چاہیے۔ سوئمنگ پول کے بغیر بچے زندہ رہ نہیں سکتے۔ لیکن برخوردار روشن۔۔۔۔۔''
قاضی صاحب نے بولتے بولتے پھر توقف کیا، سانس لیا اور دوبارہ روشو سے مخاطب ہوکر کہنے لگے ''لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب پیٹ میں روٹی ہو، بجلی کے بغیر آدمی نے پوری تاریخ گزاردی، پجیرو اور مرسٹڈیز کے بغیر آپ پوری زندگی گزارسکتے ہیں۔ ٹی وی اور وی سی آر کے وجود میں آنے سے پہلے بھی لوگ زندہ تھے لیکن روٹی کے بغیر کوئی ایک دن زندہ رہ سکا ہے اور کوئی دو دن گزارلے گا مگر تیسرے دن مرجائے گا۔ پندرہ سولہ گھنٹے کا روزہ رکھنے کے بعد افطاری کے وقت تو اکثر لوگوں پر نزع کا عالم طاری ہوتا ہے۔ ہم نے قحط کے زمانے میں سونے کی پوٹلیوں کے بدلے ایک روٹی مانگتے لوگوں کو دیکھا ہے۔ خوش نصیب لوگ ہو کہ تم نے قحط نہیں دیکھا۔''
حمید کاشمیری یہ جانتے ہیں کہ غربت اور بھوک سے لڑنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار تعلیم ہے۔ وہ انسان کو ذہنی طور پر بلند دیکھنے کے متمنی ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب جہالت کی بھیانک تاریکی کا دور ختم ہو اور علم کی منور کرنیں ہر سو پھیل جائیں۔
اسی حوالے سے انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''قصور جہالت کی اس بھیانک تاریکی کا ہے جو ایک دوسرے کو قتل پر اکساتی ہے، جب تک ہم علم کی روشنی سے محروم رہیں گے ہمیں اپنی زندگیوں کی صحیح قیمت کا اندازہ نہیں ہوسکے گا۔ ہمارے باپ قتل ہوتے رہیں گے اور اسی طرح ہم ان کے بدلے لیتے رہیں گے۔ دلوں کے درمیان محبت اور ہمدردی کی جگہ نفرت اور عداوت کی دیوار اور بلند ہوتی جائے گی۔ پیار محبت سے جینا چاہتے ہو تو اس دیوار کو گرادو دوستو۔''
غربت سے نجات کے لیے جہالت سے لڑنا بنیادی شرط ہے۔ پاکستانیوں نے آزادی اسی لیے حاصل کی تھی کہ دنیا کے دوسرے غریبوں کی طرح وہ بھی آزاد ہوکر غربت اور جہالت سے نجات حاصل کرسکیں گے لیکن آزادی کے بعد جو کچھ ہوا، اس کا نقشہ حمید کاشمیری نے ''یہ گلی'' میں یوں کھینچا کہ آزادی کے متوالے بڑی حیرت اور مایوسی سے آسمان کو تکتے رہے، تک رہے ہیں اور تکتے رہیں گے۔ اب اس گلی سے بہت کم لوگوں کا گزر ہوتا ہے اور جو خال خال گزرتے ہیں ان کی صورتوں سے میں اچھی طرح آشنا ہوں۔ مثلاً صبح صبح دفتروں کے کلرکوں کا گزر ہوتا ہے۔
منحنی سے جسم، زرد پیلے چہرے، اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں اور چہروں پر خوف دلانے والی پرپیچ جھریاں۔ لیکن ان میں کچھ کلرک اچھے، تندرست اور توانا ہیں، یہ نئے ملازم ہیں۔ ان کی ملازمت کا عرصہ دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں۔ دو ڈھائی سال کے بعد خودبخود ان کی رنگتیں زرد پڑجائیں گی اور جسم کی ہڈیاں نمایاں ہونے لگیں گی اور دق کے جراثیم انھیں کھانسی کے ساتھ خون اگلوائیں گے۔
انھیں یہ بھی غلط فہمی ہے کہ بیس پچیس سال ملازمت کر کے وہ ریٹائر ہوجائیں گے اور اپنی خدمات کے سلسلے میں پنشن کا گرانقدر عطیہ انھیں مل جائے گا۔ مگر ان کے چہروں پر چھائی ہوئی زردی، مایوسی اور کمزوری چلا چلا کر کہتی ہے یہ خود کو فریب دے رہے ہیں اور یہ بیس پچیس برس تو کیا، دس پندرہ سال بھی بمشکل زندہ رہ سکیں گے۔ ان میں سے ہر ایک دق کا مریض ہے۔ یہ بیمار ہیں، ان کے پاس دوا کے لیے پیسے نہیں۔ یہ صاف ستھرا کھانا نہیں کھاسکتے۔ اپنی گرتی ہوئی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے پھل نہیں کھاسکتے۔
یہ اچھے کپڑے پہننا چاہتے ہیں مگر نہیں پہن سکتے۔ یہ اپنے بچوں کو صحیح طور پر تعلیم دلانا چاہتے ہیں مگر ان کی محدود تنخواہیں گراں تعلیم کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ ان کی تنخواہیں تو صرف گندم کی ذمے داری لیتی ہیں اور یہ خمار گندم میں کھوجاتے ہیں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یہ خودفریبی میں مبتلا ہیں اور خوش ہیں کہ وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ اس متعفن گلی سے گزرتے ہوئے کچھ نہیں کہتے لیکن ان کے چہروں پر چھائی ہوئی مردنی سب کچھ کہہ جاتی ہے۔
یہ پاکستان کے اور تیسری دنیا کے سیکڑوں شہروں اور قصبوں کی گلی کا نقشہ ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک محرومی و افلاس کی زندگی سے کتنے لوگوں کو نجات دلاسکیں گے۔ ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، جو کام حکومتوں کا ہے، وہ انھیں کرنا چاہیے، لیکن تیسری دنیا کے ادیبوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے قلم سے غربت اور جہالت کے خلاف لڑتے رہیں۔ اس لڑائی کا خاتمہ آج نہیں تو کل ضرور ہوگا۔