کراچی کے سرکاری اسکولوں کو 3 لاکھ کتابوں کی کمی کا سامنا
سندھ میں تعلیمی سیشن اپنا نصف وقت گزار چکا ہے
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے تحت سرکاری اسکولوں کو مفت فراہم کی جانے والی درسی کتب کی تعلیمی اداروں میں بدترین قلت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
ان درسی کتب کی سیکنڈری کلاسز میں شدید کمی کی اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آرہی ہیں جب سندھ میں تعلیمی سیشن اپنا نصف وقت گزار چکا ہے۔
سب سے زیادہ کمی کا سامنا نویں اور دسویں جماعتوں میں زیر تعلیم سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو کرنا پڑ رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ سیکنڈری کی سطح پر کراچی کے بیشتر سرکاری اسکولوں میں ان درسی کتب کی زیادہ قلت ہے جن کے ایڈیشن تبدیل ہوئے ہیں اور نویں و دسویں جماعتوں کی سطح پر نئے ایڈیشن کے ساتھ چھپنے والی درسی کتب اکثر سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی دسترس سے باہر ہیں۔
ان کتابوں میں انگریزی، طبعیات، ریاضی اور علم کیمیاء کے مضامین کی درسی کتب شامل ہیں جبکہ مطالعہ پاکستان کی درسی کتب بھی انتہائی کم فراہم کی گئی ہیں۔
کراچی کے ایک سرکاری تعلیمی ادارے گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول قصبہ کالونی اورنگی ٹائؤن کے ہیڈ ماسٹر مسعود الحسن نے ''ایکسپریس'' کے رابطہ کرنے پر اپنے اسکول میں درسی کتب کی فراہمی کے حوالے سے بتایا کہ انتہائی اصرار کے بعد ہمیں ایک بار پھر کچھ ٹائٹل دیے گئے ہیں لیکن وہ ہماری انرولمنٹ کے برعکس بہت کم ہیں، انھوں نے دعویٰ کیا کہ طبعیات کی نئی کتاب کا ٹائٹل تو آج تک ہم نے دیکھا ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کتابیں نہ ہونے کے سبب بہت سے طلبہ نے اسکول آنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ انکی اتنی استطاعت نہیں کہ بازار سے کتابیں خرید سکیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جو کتابیں فراہم کی گئی ہیں وہ بھی اچھے حال میں نہیں ہیں جس کی وجہ معلوم نہیں۔
ادھر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ اس معاملے کا ذمے دار محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ضلعی افسران کو سمجھتا ہے۔ بورڈ کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کئی کیسز ایسے سامنے آئے ہیں کہ ضلعی افسران نے یہ کتابیں گودام سے نجی اسکولوں کو دے دی ہیں۔
دوسری جانب چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین آغا سہیل کا کہنا ہے کہ ''ہم نے کتابیں فراہم کر دی ہیں پہلے تو ہمیں درست انرولمنٹ فراہم نہیں کی جاتی جس سے مسئلہ آتا ہے پھر سندھ کے بعض علاقوں میں تو 70 فیصد کتابیں گوداموں میں ہی پڑی رہ گئی، ان کی مناسب ڈسٹریبیوشن نہیں ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ ہماری ذمے داری کتابوں کو گوداموں تک پہنچانا ہے۔
چیئرمین بورڈ نے دعویٰ کیا کہ جن اسکولوں کے پاس اب بھی کتابیں نہیں پہنچی وہ مجھ سے رابطہ کریں ٹیکسٹ بک بورڈ خود انھیں کتابیں پہنچائے گا.
علاوہ ازیں, کراچی میں سیکنڈری اسکولوں کے ساتھ ساتھ سیکریٹری اسکول ایجوکیشن کے ذرائع سے ملنے والا ڈیٹا چیئرمین بورڈ کے اس دعوے کی قطعی تصدیق نہیں کرتا اور یہ ڈیٹا چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے دعووں کے برعکس ہے۔
کراچی کے سیکنڈری سرکاری اسکولوں میں اس وقت بھی مختلف ٹائٹلز کی 2 لاکھ 94 ہزار سے زائد یعنی تقریبا 3 لاکھ درسی کتابوں کی کمی ہے اور اس معاملے سے آفیشلی محکمے کو آگاہ بھی کیا گیا ہے، تقریباً 2 ہزار سے کچھ زائد کتابیں سیکنڈری اسکولوں کے گوداموں میں ہیں۔
کراچی کے سیکنڈری اسکولوں کے کل 22 گوداموں کو مجموعی طور پر 8 لاکھ 11 ہزار سے کچھ زائد کتابیں دی گئی تھی جبکہ 8 لاکھ 9 ہزار کتابیں تقسیم کی گئی اور 2539 کتابیں گوداموں میں ہے جبکہ انرولمنٹ کے حساب سے مزید 2 لاکھ 94 ہزار کتابیں کم بھجوائی گئی ہیں۔
سب سے زیادہ کمی ضلع وسطی، کیماڑی، کورنگی، ملیر اور ضلع غربی کے اسکولوں میں ہے۔ ادھر ابراہیم علی بھائی گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول ایف بی ایریا بلاک 10 کے ہیڈ ماسٹر خورشید نے بتایا کہ ''ان کے اسکول میں بھی کتابیں انرولمنٹ سے کم فراہم کی گئی ہیں اور درسی کتابوں کی زیادہ قلت نویں و دسویں جماعتوں میں نئے ایڈیشن میں ہے، کچھ طلبہ انگریزی زبان کا ٹائٹل مانگتے ہیں جو ہمارے پاس بالکل بھی نہیں ہے یہ طلبہ سائنس کے مضامین اردو میں نہیں پڑھنا چاہتے''۔
یاد رہے کہ محکمہ تعلیم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کی سب کمیٹی کی سفارش کے مطابق سندھ بھر میں میٹرک کے امتحان 8 مئی اور انٹر کے 22 مئی سے شروع ہونے ہیں اور میٹرک کے امتحان میں تقریباً ساڑھے 4 ماہ کا عرصہ باقی ہے تاہم اشاعت اور تقسیم کے مسائل کا سامنا سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو کرنا پڑ رہا ہے۔
ادھر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین کی جانب سے کتابوں کی کمی کے معاملے پر دیے گئے موقف کے حوالے سے جب ''ایکسپریس'' نے ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کراچی سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری فرناز ریاض سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''جو کتابیں ہمارے گوداموں میں ہیں وہ ایسے ٹائٹلز ہیں جن کی اسکولوں میں مزید ڈیمانڈ نہیں ہے ان کی تعداد بھی بہت کم ہیں ہم موصولہ کتابوں میں سے 99 فیصد تقسیم کرچکے ہیں اور اصل کمی سے اپنے محکمے کو آگاہ کرچکے ہیں''۔