’’فوجیان‘‘ سے امریکا و بھارت پر دہشت کیوں طاری ہے

’’فوجیان‘‘ نہایت جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی ، آلات اور سرعت رفتار میزائلوں سے لَیس ہے


Tanveer Qaisar Shahid December 26, 2022
[email protected]

کبھی دُنیا پر دو سُپر پاورز، امریکا و رُوس، کا راج تھا۔ ان دونوں نے دُنیا بھر کو اپنے اپنے بلاکس میں تقسیم کررکھا تھا۔ دُنیا کے تقریباً ہر ملک پر لازم ہو چکا تھا کہ اپنی جغرافیائی ، سیاسی اور معاشی آزادی اور تحفظ کے لیے ان دونوں میں سے کسی ایک سُپر پاور کے ساتھ منسلک رہے۔

پھر افغان جنگ نے سوویت یونین کی ہوا نکال دی اور سوویت یونین بکھر کر صرف رُوسی فیڈریشن تک محدود ہو گیا۔ اِس میں بھی اللہ ہی کی کوئی حکمت ہوگی ۔ سوویت یونین کے خوفناک زوال کے بعد کچھ برسوں تک امریکا تنہا ہی دُنیا کی اکلوتی سُپر پاور کی حیثیت میں دندناتا رہا۔

خالقِ کائنات اس دُنیا میں توازن قائم رکھتا ہے ، چنانچہ توازن کا تقاضا تھا کہ سوویت یونین کی جگہ کوئی اور عالمی قوت سامنے آئے اور امریکا کے سامنے کھڑی ہو جائے ۔ اب سوویت یونین کی جگہ چین لے چکا ہے ۔ دُنیا میں اب چین اور امریکا کی شکل میں دو سُپر پاورز ہیں۔ چین اب فوجی، معاشی اور صنعتی اعتبار سے امریکا کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں للکار رہا ہے۔

چین، امریکا کی طرح، عالمی جارحیتوں کا مہلک ارتکاب کرنے کے جرائم کا مرتکب تو نہیں ہوتا لیکن چین نے امریکا کو عالمی سطح پر نتھ ڈال رکھی ہے ۔چند دن قبل ''بالی''( انڈونیشیا) میں ہونے والی G20 کانفرنس میں امریکی اور چینی صدور کے درمیان جو مکالمہ ہُوا ہے، وہ دراصل دونوں سپر پاورز کے درمیان برابر کی سطح کا ڈائیلاگ قرار دیا گیا ہے۔

گزشتہ روزچین نے ''فوجیان'' نامی ایک دیو ہیکل، جدید ترین طیارہ بردار جنگی بحری جہاز سرکاری طور پر پہلی بار سمندر میں اُتارا ہے تو ساری دُنیا میں اس واقعہ سے تاریں کھڑک گئی ہیں۔ خصوصاً ''فوجیان'' کے سمندر میں اُترنے پر امریکا اور بھارت میں خوف اور دہشت کی لہریں دوڑ گئی ہیں کہ اس طیارہ بردار بحری جنگی جہاز کے میدان میں آنے پر چین نے اپنی بے پناہ بحری فوجی قوت کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

''فوجیان'' چین کا تیسرا بڑا طیارہ بردار بحری جنگی جہاز ہے۔ اس کی خصوصیت مگر یہ ہے کہ یہ دُنیا کا وہ طیارہ بردار جنگی جہاز ہے جو بے پناہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لَیس ہے۔ اس میں الیکٹرو میگنیٹک ایئر کرافٹ لانچنگ سسٹم (EMALS) ٹیکنالوجی خاص طور پر بروئے کار لائی گئی ہے۔ اِس ایڈوانس ٹیکنالوجی سے کئی چینی جنگی جہاز, جنگ اور امن کے دوران،بیک وقت بآسانی ''فوجیان'' پر اُتر اور پرواز کرسکیں گے۔

عالمی عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ''فوجیان''کو چینی قیادت نے سمندروں میں اُتار کر دراصل امریکا کے سب سے طاقتور ترین طیارہ بردار جنگی بحری جہاز( جیرالڈ فورڈ) کی طاقت اور حشمت کو چیلنج کیا ہے ۔'فوجیان'' کا وزن 80ہزار ٹن جب کہ مذکورہ امریکی بحری طیارہ بردار کا وزن ایک لاکھ ٹن ہے۔

''فوجیان'' کی تیاری و ساخت میں چار سال صَرف ہُوئے ہیں۔ اِسے شنگھائی میں بروئے کار جدید ترین کارخانے '' چائنہ اسٹیٹ شپ بلڈنگ کارپوریشن''(CSSC) نے صد فیصد چینی ٹیکنالوجی اور چینی انجینئرز نے تیار کر کے دُنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔

چینی سرکاری انگریزی اخبار''دی ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ'' نے اپنے قارئین کو مزید خوشخبری سنائی ہے کہ چین عنقریب اپنا چوتھا طیارہ بردار جنگی بحری جہاز بھی سمندر میں اُتارنے والا ہے ۔ ابھی تو ''فوجیان'' کی لہروں نے امریکا، بھارت،آسٹریلیا، برطانیہ ،رُوس اور فرانس کے حواس پر خوف طاری کررکھا تھا کہ چینی میڈیا نے چوتھے چینی طیارہ بردار بحری جہاز سامنے لانے کی خبر داغ دی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ''فوجیان'' کو ابھی پوری طرح فنکشنل نہیں کیا گیا ہے۔ سمندر میں ابھی کچھ عرصہ کے لیے اس کا ٹرائل ہوتا رہے گا۔ سی این این نے اس ضمن میں یہ دلچسپ خبر شایع کی ہے کہ '' جب تک فوجیان پوری طرح فنکشنل نہیں ہوجاتا، تب تک چین کی حریف دُنیا خیر منا سکتی ہے۔''

واقعہ یہ ہے کہ ''فوجیان'' کے سامنے آنے پر بھارتی اور امریکی میڈیا میں سب سے زیادہ ہلچل اور تہلکہ مچا ہُوا ہے ۔ چین نے اپنے اس طاقتور ترین بحری جنگی طیارہ بردار جہاز کا نام اپنے جنوب مشرقی صوبے ''فوجیان'' کے نام پر رکھا ہے۔ یہ صوبہ اپنے بلند پہاڑوں اور اسٹرٹیجک ساحلوں کی بنیاد پر چین کا محفوظ ترین صوبہ کہلاتا ہے۔

''فوجیان'' اگرچہ دُنیا کا پہلا دیو ہیکل بحری طیارہ بردار جنگی جہاز نہیں ہے لیکن اس کے سامنے آنے پر مغربی دُنیا اور بھارت پر سراسیمگی کی کیفیت طاری ہے۔امریکا اگرچہ اب بھی دُنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین بحری فوجی طاقت کا مالک ہے۔

اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رواں لمحوں میں دُنیا بھر میں جتنے بھی طیارہ بردار بحری جنگی جہاز ہیں، ان کا پچاس فیصد حصہ امریکا کے پاس ہے ۔ امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے(جیرالڈ فورڈ) کو فی الحال اس لیے بھی ''فوجیان'' پر برتری اور فوقیت حاصل ہے کہ ''فوجیان'' کوئلے ، بھاپ اور ڈیزل کی طاقت سے چلتا ہے جب کہ '' جیرالڈ فورڈ'' ایٹمی طاقت سے بروئے کار ہے۔

اس کمی اور خامی کو دُور اور امریکیوں کو چیلنج کرنے کے لیے چینی معتبر سرکاری میڈیا نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ چین اپنا جو چوتھا طیارہ بردار بحری جنگی جہاز سمندر میں اُتارنے جا رہا ہے، یہ جوہری قوت سے لیس ہو گا۔ اس غیر معمولی اعلان سے بھی QUADممالک ( جاپان، امریکا، بھارت اور آسٹریلیا) پر ہیبت سی طاری ہے۔

جاپان نے تو سب سے پہلے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ''فوجیان'' کی وجہ سے ہمارے سمندر غیر محفوظ ہو جائیں گے۔بھارتی میڈیا بھی کچھ ایسا ہی واویلا مچا رہے ہیں۔ چینی قیادت کا مگر اصرار کے ساتھ کہنا ہے کہ ''فوجیان'' کو اس لیے تخلیق نہیں کیا گیا ہے کہ چین کسی کے خلاف جارحیت کے عزائم رکھتا ہے بلکہ'' فوجیان'' خالصتاً چین کے ہر قسم کے تحفظ کے لیے معرضِ عمل میں لایا گیا ہے ۔

چینی بحریہ کے پاس پہلے بھی چار عدد ایسے جدید ترین بحری جنگی جہاز بروئے کار ہیں جو عالمی سمندروں میں امریکی ، جاپانی، آسٹریلوی اور برطانوی بحری طاقتوں کے سامنے سینہ تانے ہُوئے ہیں ۔ ''فوجیان'' کے مگر منصہ شہود پر آنے سے بھارت خاص طور پر اس لیے بھی خائف ہے کہ بھارت کے پاس اِس وقت جو دو طیارہ بردار جنگی بحری جہاز ( آئی این ایس وکرم ادیتیہ اور آئی این ایس وکرانت) ہیں ، وہ ''فوجیان'' کے مقابلے میں کمتر اور کم ایڈوانس ٹیکنالوجی سے لَیس ہیں۔

امریکا کو بھی یہی پریشانی ہے کہ اُس کے پاس ''جیرالڈ فورڈ'' نامی جو سُپر طیارہ بردار بحری جہاز ہے، وہ پانچ سال پرانا ہو چکا ہے ۔جب کہ ''فوجیان'' نہایت جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی ، آلات اور سرعت رفتار میزائلوں سے لَیس ہے۔ سمندر میںاس کی رفتار بھی بھارتی، امریکی، جاپانی اور آسٹریلوی طیارہ بردار جنگی جہازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں انڈین نیوی کی پریشانیاں قابلِ دید ہیں۔

بھارتی بحریہ کو یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ اُس کا طیارہ بردار بحری جنگی جہاز( آئی این ایس وکرم ادیتیہ) ابھی چند دن پہلے ہی 18مہینوں کی مرمت کے بعد سمندر میں اُتارا گیا ہے۔ اس کے پوری طرح فنکشنل ہونے میں بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ یہ خیال بھی بھارتیوں کو سونے نہیں دے رہا کہ اِس دوران اگر ''فوجیان'' بحرِ ہند میں دَر آتا ہے تو انڈین نیوی کا کیا بنے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔