ہم تنزلی کا شکار کیوں ہیں

اگر ہم اقوام عالم کی طرز پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی اصولوں اور اخلاقیات پر عمل کرنا ہوگا


ملکی اور غیر ملکی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم پارلیمنٹ میں دھواں دھار خطاب کررہی تھیں کہ اچانک جوش خطابت میں انہوں نے اپنے مخالف ڈیوڈ سمر کے بارے میں ایک نامناسب لفظ کہہ دیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ لفظ پارلیمانی کارروائی سے حذف بھی نہ ہوسکا۔

اس لفظ پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انہوں نے معذرت بھی کی، لیکن ڈیوڈ سمر کو چونکہ بے حد صدمہ پہنچا تھا، انہوں نے اپنی باری پر جوابی لفظی وار کرنے کے بجائے یا میڈیا سے گفتگو کے دوران ذاتی حملے کرکے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے بجائے، اپنے درد کے مثبت استعمال کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم کو اس نامناسب لفظ کی نیلامی کا مشورہ دیا۔

پڑھی لکھی اور باشعور وزیراعظم نے اس مشورے کو قبول کیا۔ ان الفاظ پر مشتمل وزیراعظم کی دستخظ شدہ کاپی کو نیلام کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کاپی کی نیلامی 63000 امریکی ڈالرز میں نیلامی ہوئی اور پھر یہ رقم عوام کی فلاح بہود کےلیے کینسر فاؤنڈیشن میں جمع کروادی گئی۔

یہ ان لوگوں کی صورتحال ہے جو ہمارے کہنے کے مطابق جہنمی ہیں اور ہم جو خود کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں، ہمارے ہاں جو اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اور تو اور ہمارے خودساختہ ریاست مدینہ کے معمار اپنے مخالفین پر جس انداز میں حملہ آور ہوتے ہیں، ریاستی اہلکاروں کو جس انداز میں دھمکاتے ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد ان کا جو خوفناک انجام ہونے والا ہے جس طرح سرعام اس کی نوید سنائی جاتی ہے، اس سے یہ حقیقت منکشف ہوتے دیر نہیں لگتی کہ ہم کافر اقوام سے ترقی میں پیچھے کیوں ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے غیر مسلموں کی ترقی کے پیچھے ایسے کئی ایک واقعات ہیں اور ہماری تنزلی کی کئی ایسی وجوہات۔ آج کا کافر دین اسلام کے اصولوں پر ان کی روح کے مطابق عمل پیرا ہوکر ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے جبکہ ہم عشق رسول ﷺ میں سرشاری کے دعویدار عمل نہ کرنے کی وجہ سے پستی کی جانب گامزن ہیں۔

غیر مسلم نہ صرف خود اصولوں پر عمل کرتے ہیں بلکہ ہم جیسوں سے بھی عمل کرواتے ہیں، جیسے مثال کے طور پر ہمارے وزیراعظم شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اشارے پر رکنا تو دور کی بات پروٹوکول کے بغیر سفر ہی نہیں کرتے جبکہ یہی عظیم ہستی ولایت میں قوانین کی پاسداری میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اگر ہم عمل نہ کریں تو عمل کروالیا جاتا ہے، جیسے ہمارے دبنگ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جب حجاج میں لائن توڑنے کی کوشش کی تو انہیں مجبور کردیا گیا کہ وہ قانون پر عمل کریں۔

خواص ہی نہیں عوام کا بھی یہی حال ہے۔ مجھے یاد ہے 2013 میں حج کے سفر سے واپسی ہورہی تھی، ہماری فلائٹ براستہ ملتان تھی۔ جیسے ہی ہم نے ملتان ایئرپورٹ پر لینڈ کیا، پاکستانی بھائیوں نے جہاز میں ہی قوانین کی دھجیاں اڑانا شروع کردیں، جبکہ یہی مسافر ابوظہبی ایئرپورٹ پر اچھے بچوں کی طرح قوانین کا احترام کررہے تھے۔

حالیہ دنوں میں پاکستانی بھائیوں نے خلیجی ممالک کے قوانین کو جب پاکستانی قانون سمجھا تو پھر قانون حرکت میں آیا۔ پہلے ایک برادر خلیجی ملک جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، بلکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی بھارتیوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں، اور ملک کی معیشت میں اہم خدمات سر انجام دے رہے ہیں، جب وہاں پر پاکستانیوں نے قوانین کا احترام نہ کیا تو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے اس ملک نے پہلے ہمارے چھ شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد پر پابندی لگائی۔ جب ہمیں پھر بھی عقل نہ آئی تو یہ تعداد 12 ہوئی۔ ہم نے پھر بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو یہ تعداد 18 اور اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 24 شہر بلیک لسٹ ہوچکے ہیں۔

عوام کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ملکی اور غیر ملکی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔ خیر تو بات ہورہی تھی اخلاقیات کی۔ اگر ہم اقوام عالم کی طرز پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس انداز میں اسلامی اصولوں اور اخلاقیات پر عمل کرنا ہوگا جس طرح غیر کرتے ہیں، بصورت دیگر حکمران کوئی بھی ہو، دن ہمیشہ وزیروں کے ہی بدلیں گے عوام کے حصے میں صرف وعدے اور ارادے ہی آئیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں