جرائم بذریعہ جرائم
ایلوپیتھی، کھیلوپیتھی ،لے لو پیتھی ،جھیلو پیتھی لیکن ہم تو اسے ہومیوپیتھی یاعلاج بالمثل کی ایک شاخ کہیں گے
یہ تو معلوم نہیں کہ دانا دانشورلوگ یعنی حکومتوں کے سقراط و بقراط یا چینلز کے حکیم لقمان اور بزر جمہر یا اخباروں کے ''چوم نوسکی'' اس طرزعلاج کو کیاکہتے ہیں۔
ایلوپیتھی، کھیلوپیتھی ،لے لو پیتھی ،جھیلو پیتھی لیکن ہم تو اسے ہومیوپیتھی یاعلاج بالمثل کی ایک شاخ کہیں گے، سیدھی سادی زبان میں آپ ،علاج مرض بالمرض، آگ کاعلاج بذریعہ آگ،یاجرائم کاعلاج بذریعہ جرائم۔یہ بھی ویسا ہی طریقہ علاج ہے جیسے آج کل ایلوپیتھی کے ڈاکٹر اسپتال اوردواساز کرتے ہیں۔
یہ بھی ایک طرح سے ہومیو پیتھی ہی ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ ہومیو پیتھک بیماریوں کا علاج دواؤں سے کرتے ہیں جب کہ جدید ایلوپیتھک علاج میں بیماریوں کا علاج ''بیماریوں'' ہی سے کیاجاتا ہے ،چھوٹی بیماری کا علاج بڑی بیماری کے ذریعے اور پھر بڑی بیماری کاعلاج اور زیادہ اور زیادہ بڑی بیماری سے۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ جب موت آتی ہے تو آدمی ''بخار'' کو قبول کرلیتاہے۔
خیریہ تو ہم ویسے ہی ایک اورگلی بلکہ بندگلی میں آگئے، پلٹ کر اپنی اصل گلی میں جاتے ہیں اور وہ ہے جرائم کا علاج بذریعہ جرائم۔آج کل کم وبیش ساری دنیا میں یہ ''طریقہ علاج'' جاری ہے جس کے اثرات ہمارے ہاں بھی پہنچ رہے ہیں۔
سب سے پہلے یہ طریقہ علاج فلموں کے ذریعے کیا جاتا تھا جہاں مروج جرائم کو ڈویلپ کیا جاتا تھا لیکن پھر جب ٹی وی چینلز آگئے تو اس طریقہ علاج کو اور زیادہ وسعت دی گئی ،پہلامرحلہ ڈراموں میں شروع ہوا، ویسے اگر اس طرز علاج کا نام ''علاج بالرومانس '' رکھا جائے تو اورزیادہ صحیح ہوگا کیوں کہ اس طریقہ علاج کے ہرنسخے کا ''جزواعظم'' مرد اورعورت ہوتی ہے۔
اداکارائیں تو ایسی لگتی ہیں جیسے ساری کی ساری جڑواں بہنیں ہوں لیکن ایسا کچھ نہیں تھا نہ یہ سب جڑواں تھیں اورنہ ہی ایک کارخانے یا سانچے کی ڈھلی ہوتی تھیں نہ ہی کہیں سے درآمد کی جاتی ہیں بلکہ ماہرین نے کچھ کیمیکلزاور روشنیوں کاایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ چندے کوا اورچندے توا آئٹم بھی چندے آفتاب اور چندے مہتاب دکھائی دیتی ہیں۔
ایک حقیقہ یاد آیا ،ایک زمانے میں ہم پشاورکے ایک ایسے حصے میں رہتے تھے جہاں ایک سرائے میں بھانت بھانت کے کنبے رہائش پذیرتھے جن میں کلوٹی لڑکیاں بھی تھیں جو سلور کے ایک برتن میں سکے چھینکا چھینکاکر مستری خانوں اور اڈوں میں بغیر سر کے گاتی تھیں اورآنکھوں سے زباں کاکام لیتی ہیں ۔
ہم باتیں بھی کرتے ہیں سربزم کسی سے
آنکھوں سے محبت میں بڑا کام چلے ہے
سرائے کے سامنے ایک چائے والے کاہوٹل تھا، ایک دن وہ ہم سے بولا ،منشی صیب، یہ ایک خاص کمیونٹی کے لوگ ہوتے ہیں جو ہرپڑھے لکھے کو من شی کہتے ہیں، چاہے وہ پی ایچ ڈی پروفیسر ہویا پرائمری فیل۔ بولا ، منشی صیب تم نے اس فلاں عورت کو غورسے دیکھا۔ ہم نے کہا ،نہیں ۔ بولا ، پھر آپ واقعی منشی صیب ہی ہیں، وہ سب کچھ آنکھوں ہی آنکھوں میں تو کرتی ہیں۔
تم نہ سمجھو تو تمھاری قسمت۔ شوبز اور فیشن انڈسٹریز کی یہ ''حسینائیں'' بھی آنکھوں کی زبان کی ماہر اور اہل زبان ہوتی ہیں لیکن پھر نہ جانے کن ماہرین نے ایک اور زبردست ایجاد کرلی ،جرائم کی سچی کہانیاں، کرائم الرٹ، کرائم ورلڈ، کرائم اسٹاپ۔جن میں سارے جرائم کو بیڈ روم تک محدود کیاگیا اور ان ڈراموں کے ذریعے یہ بھی انکشاف ہوا کہ وہاں اب سارے رشتے صرف ایک بیڈ روم کے رشتے میں ضم ہوگئے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ میں خود بھی ایسے ڈراموں کا رسیا ہوں، انھیں غور سے دیکھتا، سنتا اور سمجھتا،اگر ایسا نہ کرتا تو کالم کیسے لکھتا، ایسی کہانی، منظر نامہ اور خوبصورتی، ان کے یکجا ہوتے ہی ناظرین کی سانسیں تیز ہوجاتی ہیں، یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ ایسے ڈراموں اور فلموں نے معاشرے میں ہیجان اور انتشار پیدا کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ملک بھرمیں خواتیں اور بچوں سے زیادتی کے واقعات میں خاطرخواہ اضافہ ہورہاہے ۔