کوئی دوسری بینظیر موجود نہیں ہے
بی بی شہید مارشل لاء کی چکی میں پس کرلیڈر بنیں، انھوں نے اپنے والدکا خلا بھی پر کیا اور ان کی سیاست کوایک نئی زندگی دی
جمہوریت کی اصل بنیاد انتخابات ہوتے ہیں، اس کا تسلسل ہی ملک کی درست سمت متعین کرنے کا واحد راستہ ہے۔
ان دنوں عمران خان قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ تحریک انصاف ملک کے دوبڑے صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی حکمرانی کا لطف اٹھا رہی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں وہ ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
اس بھرپور اقتدار کے باوجود وہ بضد ہیں کہ نئے انتخابات کرائے جائیں اور اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے وہ ملک کے کسی بھی اسٹیک ہولڈر کو معاف نہیں کر رہے ۔ ہر روز وہ سیاستدانوں کے علاوہ مقتدر حلقوں کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو ناجائز طریقے سے گرایا گیا لیکن جمہوریت اور جمہوری نظام میں سیاسی جوڑ تور چلتا رہتا ہے جو بھی حکومت سیاسی بیساکھیوں کی سہارے قائم ہوتی ہے، اس کو ہر وقت ان بیساکھیوں کے چھن جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ایسا ہی عمران خان کی حکومت کے ساتھ بھی ہوا۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو تو امپورٹڈ حکومت کاخطاب دے دیا لیکن اس تبدیلی کی ذمے داری پاکستان کے مقتدر حلقوں کے ساتھ امریکا پر بھی ڈال دی۔پھر امریکا مخالف بیانئے سے تو وہ بتدریج دستبردار ہو گئے ہیں اور انھوں نے امریکا کے ساتھ صلح کا ڈول ڈال دیا ہے لیکن پاکستانی مقتدرہ کے ساتھ بظاہر وہ صلح پر تیار نظر نہیں آتے۔
وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے ہی قبل از وقت انتخابات کے لیے مثبت کردار کے متمنی ہیں۔بقول شاعر 'بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے 'والا معاملہ بن گیا ہے، وہ امید اور توقع کا برملا کا اظہار کر رہے ہیں کہ مقتدرہ ہی قبل از وقت الیکشن کرا سکتی ہے۔
ان کی یہ منطق سمجھ سے باہر ہے ایک طرف تو وہ ادارے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور پھر وہیں سے مدد کی توقعات بھی۔ان کی دو عملی سمجھ سے باہر ہے۔
پاکستان کو اس وقت انتخابات سے زیادہ ضرورت معاشی استحکام کی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ملک میں کوئی ایسی سیاسی شخصیت موجود نہیں ہے جو سب کو ایک چھتری تلے جمع کر سکے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی یاد آ رہی ہے۔
ان کا احترام تمام سیاسی رہنماء کرتے قیادت کو تسلیم کرتے تھے۔ یہ ملک کسی مفاد پرست ٹولے کا ہر گز نہیں ہے، یہ ملک ہم بائیس کروڑ پاکستانیوں کا ہے جنھوں نے اسی ملک میں زندگی گزارنی ہے اور ہمارا جینا مرنا یہیں ہے۔
ملک کے لیے قربانیاں عوام دیتے ہیں، یہ لیڈر حضرات تو ان قربانیوں کے ثمرات سمیٹتے ہیں۔ سیاست دانوں نے ملک سنبھالنے اور بچانے کی ذمے داری کو عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر رکھا ہے، یہ خود صرف اقتدار کے بھوکے ہیں۔
الیکشن کا ذکر ہو اورمحترمہ بینظیر بھٹو شہید کی یاد محو ہو جائے یہ ممکن نہیں ۔ وہ پاکستان کی ہی نہیںامت مسلمہ کی پہلی سیاسی رہنما تھیں جو وزیر اعظم بنیں۔پاکستان کے لیے بھٹو خاندان کی سیاسی قربانیاںدیکھیں تو اس خاندان کے شہید صف اول میں نظر آئیں گے۔ سیاست کے لیے بھٹو خاندان کا قبرستان شہیدوں کا مسکن بن چکا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو بھی ایک انتخابی مہم کے دوران ہی راولپنڈی میںشہید کی گئیں تھیں، افسوس کہ ان کے قتل کے ذمے داروں کا علم نہیں ہو سکا لیکن وہ جو کوئی بھی تھا وہ اس ملک کا دشمن ضرور تھا، آج تک بی بی شہید کا خلا یہ ملک پر نہیں کر سکا کیونکہ کوئی دوسری بینظیر موجود نہیں ہے۔
بی بی شہید بین الاقوامی لیڈر تھیں۔ طویل خود ساختہ جلاوطنی کے بعد جب وہ وطن واپس لوٹیں تو ان کا کراچی میں فقید المثال استقبال کیا گیا جس کے دوران ایک خود کش دھماکا بھی ہوا ، یہ گویاایک وارننگ تھی لیکن اس مرتبہ ماضی کے برعکس ایک مختلف بینظیر عوام کے ایک بڑے ہجوم کو لیڈ کر رہی تھی ایک سوال کے ذریعے ان کو جان کے خطرے سے آگاہ کر کے ڈرانے کی کوشش کی گئی تو ان کا جواب تھاکہ بھٹوز کی عمریں مختصر ہوتی ہیں۔
جلا وطنی میں ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان میں لوگ کس قدر بے قراری اور بے چینی سے ان کے منتظر ہیں، جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ مارشل لاء کا خاتمہ ہوا تھا، عوام جمہوری حکمرانوں کے لیے ترس رہے تھے ۔
بی بی شہید مارشل لاء کی چکی میں پس کر لیڈر بنیں، انھوں نے اپنے والد کا خلا بھی پر کیا اور ان کی سیاست کو ایک نئی زندگی دی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ صوفیاء کی سر زمین سندھ کے ان دو بھٹوز میں سے بڑا لیڈرکون ہے ۔
آج یہ دونوں یادگار لیڈر ہم میںموجود نہیں لیکن ان کی یادیں اس قوم کے ذہن سے کبھی محو نہ ہو سکیں گی۔ دونوں پاکستان کے مفاد پر قربان ہو گئے۔ بی بی شہید کی شہادت کے موقع ان کی یاد میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی دوسری بینظیر موجود نہیں ہے۔