طالبان اور پتھر کا دور
کابل کی حکومت کی ان پالیسیوں کے نتیجہ میں افغانستان میں غربت کی سطح بڑھ رہی ہے
حسیبہ کابل میں رہتی ہے اور کابل یونیورسٹی میں سیاسیات کے شعبہ میں تیسرے سال کی طالبہ ہے۔ افغانستان میں امتحانات کی تیاریوں کے لیے یونیورسٹیوں میں تعطیلات ہیں۔
حسیبہ کو گزشتہ ہفتہ کے آغاز پر یہ بری خبر سنائی گئی کہ وہ اب امتحان نہیں دے سکتی۔ طالبان حکومت نے طالبات پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کردیے ہیں۔ کابل اور دیگر شہروں میں 21 دسمبر کو جب طالبات اپنی یونیورسٹیوں میں پہنچیں تو وہاں مسلح طالبان موجود تھے۔
انھوں نے طالبات کو یونیورسٹیوں میں داخلہ کی اجازت نہیں دی، یوں یونیورسٹیوں کے دروازوں پر طالبات کا ایک ہجوم اکٹھا ہوا۔ مسلح افراد نے زبردستی ان طالبات کو منتشر کیا۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اژان فرانس پریس کے فوٹوگرافر نے اس منظر کو اپنے کیمرہ میں منتقل کیا اور پھر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز میں یہ تصاویر نشر ہوئی اور اخبارات میں شایع ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر اس پابندی کا چرچا رہا۔ کابل کی پرائیوٹ یونیورسٹی کی بزنس فیکلٹی کی طالبہ شائستہ نے یونیورسٹی میں داخلہ پر پابندی کا منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ہر لڑکی اس غم سے چیخ رہی تھی مگر کوئی دادرسی کے لیے موجود نہ تھا۔
ایک یونیورسٹی پروفیسر جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا ،کہا کہ ہمارے پاس اس فیصلے کی پابندی کرنے کے سواکوئی اور چارہ نہیں ہے۔ کابل یونیورسٹی کی ایک طالبہ ستارہ نے کہا کہ طالبان خواتین کو دبانا چاہتے ہیں مگر ماضی کے مقابلہ میں اس دفعہ افغانستان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ خواتین اور معاشرہ کے دیگر باشعور گروپوں نے آواز اٹھانا شروع کی ہے۔ افغانستان کرکٹ ٹیم کے ورلڈ کلاس اسپنر راشد خان خواتین کی تعلیم کے حق میں سامنے آئے ہیں۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر رسول اﷲ ؐ کی حدیث نشر کی ہے جس کا ترجمہ ہے ''علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔'' افغانستان کے صوبہ ننگر ہار یونیورسٹی کی میڈیکل فیکلٹی کے طلباء نے احتجاجاً امتحانات میں شرکت سے انکار کردیا۔
ان طلباء کا موقف ہے کہ ساتھی طالبات کو جب تک امتحان میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی، وہ امتحان میں شریک نہیں ہوںگے۔ اس یونیورسٹی کے سامنے طلباء اور طالبات نے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
طالبان حکومت کے ترجمان نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ طالبات کے سیکنڈری اسکول تک تعلیم کے لیے ورک پلان تیار کیا جارہا ہے مگر ترجمان یہ بتانے سے قاصر رہے کہ کب طالبات پر تعلیم کے دروازے کھلیں گے۔ طالبان حکومت نے جب گزشتہ سال کابل پر قبضہ کیا تو خواتین کی تعلیم اور ان کے روزگار کے حق کے بارے میں متضاد فیصلے سامنے آئے۔
طالبان نے پہلے خواتین کے لیے لباس کوڈ نافذ کیا لیکن خواتین کو کام پر جانے کی آزادی دی۔ پھر کچھ مہینوں بعد مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد ہوئیں۔
پہلے طالبات کے اسکول بند کیے گئے اور سرکاری طور پر بتایا گیا کہ طالبات کے اسکول جانے کے بارے میں طریقہ کار پر غور ہورہا ہے، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود اس معاملہ پر کچھ نہ ہوا، مگر طالبات کے یونیورسٹیوں میں تعلیم پر قدغن نہیں لگائی۔ صرف یہ احکامات دیے گئے کہ طلبا اور طالبات علیحدہ علیحدہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔
اساتذہ اور طلبہ نے اس فیصلہ پر احتجاج کیا کیونکہ میڈیکل ، انجینئر نگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں طلبا اور طالبات کی علیحدہ علیحدہ تعلیم کے انتظامات ممکن نہیں تھے اور کچھ مضامین کے لیے خواتین اساتذہ دستیاب نہیں تھیں۔ اچانک اسکول کی سطح سے یونیورسٹی کی سطح تک طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے۔ اب خواتین پر غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے پر بھی پابندی لگ گئی۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ طالبان خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روک سکتے۔ طالبان چاہے افغانستان کے تمام کلاس رومز اور یونیورسٹیاں ہی کیوں نہ بند کردیں مگر وہ خواتین کے ذہنوں کو کبھی بند نہیں کرسکتے۔ سعودی حکومت نے طالبان سے کابل میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر عائد پابندی واپس لینے پر زور دیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ طالبان حکومت کا یہ فیصلہ افغان خواتین کے شرعی حقوق کے منافی ہے۔ سعودی ترجمان نے مزید کہا کہ صرف سعودی عرب ہی نہیں تمام اسلامی ممالک کو اس فیصلہ پر حیرت ہے۔ جامعہ الازہرکے شیخ احمد الطیب نے طالبان حکومت کے اس فیصلہ کو شریعت سے متصادم قرار دیا ہے۔
شیخ طیب نے مزید کہا ہے کہ یہ لوگ سائنس، تعلیم، سیاست اور اسلامی معاشروں میں پیش پیش مسلمان خواتین و مردوں کی تاریخ کو بھول گئے۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی نے بھی افغان حکومت کی مذمت کی ہے۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی تنظیم افغان حکام کو اس طرح کے فیصلوں کے نتائج پر خبردار کرتی رہی ہے۔
پاکستان میں تحریک انصاف اور دیگر مذہبی جماعتیں دعوے کرتی تھیں کہ ملا عمر کی سابقہ حکومت کے بارے میں مغربی ذرایع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈہ کیا ہے، ملا عمر کا دور تو امن اور خوشحالی کا دور تھا۔
تحریک انصاف والوں نے یہ مفروضہ گڑھ لیاتھا کہ اب طالبان کی قیادت جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس ہے اور اب اگر طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پہلے کے مقابلہ میں نئے حالات ہوںگے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ افغانستان میں خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک کی داستانیں جھوٹی ہیں، مگر گزشتہ ایک سال کے دوران طالبان حکومت کے کارناموں سے دنیا واقف ہوچکی ہے۔ عمران خان تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ افغانوں کا اپنا کلچر ہے۔
اس کلچر میں خواتین کو رہنا ہے مگر شعبہ ترقیات کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ملا ہیبت اﷲ اخونزادہ کے دور اور ملا عمر کی خلافت کے دور میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ طالبان کسی صورت جدید ترقی کے اصولوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہ اب بھی قبائلی معاشرے کو آئیڈیالائز کر رہے ہیں اورافغانستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو بھی پتھر کے دور میں لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کابل پر قابض طالبان حکومت خواتین کے حقوق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور کابل حکومت کے اثرات سے خطے کا امن اور ترقی متاثر ہورہی ہے۔ طالبان حکومت کی ان پالیسیوں کے نتیجہ میں پاکستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ خیبر پختون خوا اور گلگت میں پھر اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔
کابل کی حکومت کی ان پالیسیوں کے نتیجہ میں افغانستان میں غربت کی سطح بڑھ رہی ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ افغانستان بھوک کے بدترین دور میں داخل ہوسکتا ہے اور ایک نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اس صورتحال میں ہر باشعور شخص کی ذمے داری ہے کہ افغانستان میں خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ رائے عامہ تبدیل ہو۔