ملت کا پاسباں ہے
بدقسمتی سے اُن کی اس دنیا سے جلد رخصتی کے بعد وطنِ عزیز کو ایسے رہنما نہیں مل سکے
کسی بھی قوم کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجیے اس کے ارکان کی محنت، جدوجہد اورکامیابیوں کے پیچھے آپ کوکچھ افرادنظر آئیں گے جن کی تربیت، رہنمائی اور کوشش کی وجہ سے نہ صرف ان قوموں کا اجتماعی معیار بلند ہوا بلکہ انھیں اپنے حقیقی جوہر اور فطری قابلیت کو جاننے اور اس کی سمت متعین کرنے کا بھی موقع ملا، دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیاکے نقشے میں انقلابی اور حیرت انگیز تبدیلیاں اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ رونماہوئیں کہ پوری انسانی تاریخ میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
آزادی کی ایک ایسی لہر چلی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سو سے زیادہ نئے ملک اٹلس کے صفحوں میں مدت سے چلی آتی سرحدی لکیروں کو درہم برہم کرتے ہوئے ایک نئی دنیا کا منظر پیش کرنے لگے بالخصوص افریقہ اور ایشیا میں نو آبادیاتی تسلط سے آزاد ہوکر کئی ایسے ملک وجود میں آئے جو پہلے کبھی ان ناموں اور صورت میں جلوہ گر نہیں ہوتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے لیڈر بھی سامنے آئے جنھوں نے اپنے اپنے ملکوں کی آزادی کے لیے بیش بہا خدمات سرانجام دی تھیں۔
اب اس پسِ منظرمیں برصغیر پاک و ہند پر نظر ڈالی جائے تو یہاں برطانوی حکومت کے ساتھ ساتھ بے شمار چھوٹی بڑی ریاستیں بھی اپنے مقامی سرداروں اور راجوں مہاراجوں کے زیرِاقتدار کسی نہ کسی طرح جئے چلی جارہی تھیں، اگرچہ مسلمان تعداد کے اعتبار سے آبادی کا تقریباً 30% تھے لیکن بطور جماعت اُن کا شمار ہر اعتبار سے آبادی کے سب سے زیادہ پسماندہ حصے میں ہوتا تھا۔
1906 میں ڈھاکا میں مسلم لیگ کا قیام بھی بنیادی طور پر کمیونٹی کے معاشرتی مسائل کو حل کرنا تھا یعنی تعلیم کے لیے اسکول، کالج اور بیواؤں اوریتیموں کے لیے امدادی ادارے بنائے جائیں اور عمومی طور پر بھی سیاست کا شعبہ کانگریس ہی کے سپرد کر دیا گیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح سمیت تمام مسلمان سیاستدان مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ کانگریس کے بھی ممبر تھے یہاں تک کہ مسلمانوں کی خلافت سے متعلق تحریک کے بھی سب سے بڑے پیشوا گاندھی جی ہی تھے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انگریزوں کے ساتھ سیاسی سطح پر لین دین کے دوران پہلی بار مسلمانوں کو یہ محسوس ہوا کہ کانگریس اس ضمن میں مسلمانوں کے حقوق اور مسائل سے دانستہ چشم پوشی کر رہی ہے اور وہ حقیقت میں صرف ہندو آبادی کی ہی ترجمان جماعت ہے۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یہ احساس اور کشمکش دونوں زیادہ کھل کر سامنے آگئے اور چودہ نکات کے معاملے نے اس نام نہاد اتحادکا پول اس بُری طرح سے کھولا کہ قائداعظم مسلمان سیاسی رہنماؤں کی کم مائیگی اور حالات سے مایوس ہوکرچند برسوں کے لیے انگلستان چلے گئے جہاں سے انھیں واپس بلانے میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے بعد کی کہانی ہم سب کے سامنے ہے کہ 1935 سے 1947کے بارہ برسوں کے درمیان قائد کی قیادت میں نہ صرف تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا بلکہ اُن کی دانش، سیاسی بصیرت اور اپنے مقصد سے محبت کی وجہ سے وہ ارمانوں اور اُمیدوں سے بھرا ہوا ملک پاکستان معرضِ وجود میں بھی آگیا جس میں ہم سب مختلف طرح کے نشیب و فراز کے باوجودپچھتر برس سے ایک ایسے باقاعدہ اور آزاد ملک کے طور پر دنیا کے نقشہ پر موجود ہیںجو دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلامی کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے۔
اس سارے عمل میں قائد کا کردارایسا ہے کہ جس کا ہر پہلو روشنی سے معمورہے، بدقسمتی سے اُن کی اس دنیا سے جلد رخصتی کے بعد وطنِ عزیز کو ایسے رہنما نہیں مل سکے جو اُن کے مشن کوذمے داری کے ساتھ آگے بڑھاتے نہ صرف بنگالی بھائی ہم سے علیحدہ ہوگئے بلکہ سیاست، معاشرت، مذہب، تہذیب، تعلیم، انصاف، بنیادی جمہوری اقدار اورقوتِ برداشت کے حوالے سے بھی ہمارا ریکارڈ بے حدافسوسناک ہے ۔
چند برس قبل مجھے پی ٹی وی کے ایک قومی مشاعرے میں شرکت کے لیے زیارت جانے کا موقع ملاکہ یہ مشاعرہ اسی ریذیڈنسی میں ہورہا تھا جس میں قائد نے اپنی زندگی کے آخری چند دن گزارے تھے ، اب اسے ایک قومی یادگار کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
اس کے کمروں میں گھومنے پھرنے اور ان میں سانس لینے کے دوران ایک نظم نے جنم لیا، سو آج قائد کے 146ویں یوم ِپیدائش کے حوالے سے میںاس نظم کو اہل وطن کے ساتھ شیئر کرتا ہوںکہ اس میں خواب اورخواب کی تعبیرکے ساتھ قائد کی دانش اوربصیرت بھی ہماری ہم سفرہے۔
رب ِکریم اُن کی روح کو اعلیٰ ترین درجات عطا فرمائے اور ہماری قوم کو ان کے سامنے مزید شرمندہ ہونے سے بچائے ۔ آمین
زیارت ریذیڈنسی میں ایک شام
یہیں کہیں تھی وہ خوشبو کہ جس کے ہونے سے
ہمیں بہار کے آنے کا اعتبار آیا
یہیں کہیں تھا وہ بادل کہ جس کے سائے میں
نجانے کتنی ہی صدیوںکے دھوپ کھاتے ہوئے
..................
ہر ایک دل کو ہر اک جان کو قرار آیا
یہیں کہیں کسی دالان میں رکی ہوگی
سمے کے رُخ کوبدلتی وہ خوش خبر آواز
کہ جس نے چاروں طرف روشنی سی کردی تھی
کہ جس کو سُن کے ہوا تھا یہ گُل سفر آغاز
یہیں کہیں تھا وہ بستر کہ جس کی ہر سِلوٹ
گماں میں رینگتے خدشوں کی اک گواہی تھی
وہ دیکھتا تھا انھی کھڑکیوں کے شیشوں سے
سنہری دُھوپ کے دامن میں جو سیاہی تھی
وہی فضا، وہی منظر ہے اور وہی موسم
پھر آج جیسے ستاروں سے بھر گئی ہے رات
اُتر رہی ہے تھکن بے جہت مسافت کی
مہک رہی ہے سماعت میں اُس کی ایک اِک بات
اُبھر رہی ہے کہیں دُور سے وہی منزل
کہ جس کوبھولے ہوئے ہم کو اک زمانہ ہوا
یہیں کہیں پہ وہ لمحہ کھڑا ہے بارِ دِگر
کہ جس نے بھیڑ کو اک قافلے کی صورت دی
کہ جس کے سائے میں وہ کارواں روانہ ہوا
کروں میں بند جو آنکھیں تو ایسا لگتا ہے
کہ جیسے رکھاہو اُس نے دلِ حزیں پر ہاتھ
یہیں کہیں پہ جو اس کے لبوں سے نکلی تھی
اُسی کی دُعا کا اثر چل رہا ہے میرے ساتھ